- کتاب فہرست 184502
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4296 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4828
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
علی امام نقوی کے افسانے
پاسا
"کہانی مذہبی انتہا پسندی کے ایسے گروہ کے بارے میں بات کرتی ہے، جو ایک مصنف کو تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس تجویز پر گروہ کے لوگوں اور مصنفین کے درمیان کافی بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مصنف تاریخ کی اس بازیافت میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔"
دانتوں میں گھری زبان
یہ کہانی تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ گئے مسلمانوں کی حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ تقسیم میں وہ خاندان ایک طرح سے بکھر گیا تھا۔ بڑے بھائی پاکستان چلے گیے تھےجبکہ چھوٹے بھائی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالوں بعد بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے ملنے آتا ہے اور انہیں ہندوستان میں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہتا ہے۔ مگر چھوٹا بھائی اس کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے کہتا ہے وہ ہندوستان میں اسی طرح محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔
کہی ان کہی
ایک نفسیاتی کہانی، جو خدا اور انسان کے درمیان کے رشتوں سے وابستہ کئی سوالوں پر بات کرتی ہے۔ ایک شخص شہر کے چوک میں کھڑا ہوکر پوچھتا ہے کہ کیا کسی کو پتہ ہے کہ وہ دن کون سا تھا جب خدا انسان سے خوش ہوا تھا؟ مجمع میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں مگر کوئی بھی سوال کا جواب نہیں دیتا۔ بس سبھی اس کے مذہب اور سوال کے وجہ پر زور دیتے رہتے ہیں۔
آپ رکے کیوں نہیں؟
’’یہ کہانی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی ایک شاندار مثال پیش کرتی ہے۔ بھارت میں ایک سکھ خاندان اپنے مسلم پڑوسی کے پاکستان چلےجانے کے بعد بھی محلے کی مسجد کو پہلے کی طرح ہی آباد رکھتا ہے۔ سالوں بعد پاکستان گئے خاندان کا سربراہ جب اپنے سکھ دوست سے ملنے آتا ہے تو صاف ستھری مسجد کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے۔ اس پر اس کا دوست کہتا ہے کہ ہم نے تو آپ کو جانے کے لیے نہیں کہا تھا۔ آپ خود ہی گئے تھے۔‘‘
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-