- کتاب فہرست 181620
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1877
طب794 تحریکات284 ناول4119 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1404
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح174
- گیت87
- غزل944
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1505
- کہہ مکرنی6
- کلیات640
- ماہیہ18
- مجموعہ4538
- مرثیہ362
- مثنوی775
- مسدس53
- نعت497
- نظم1129
- دیگر65
- پہیلی17
- قصیدہ176
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
انور قمر کے افسانے
کابلی والا کی واپسی
کابلی والے کے ہونٹ لرزے۔ ’’اچھا صاحب اب میں چلوں۔۔۔ وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔‘‘ ’’ہاں خان۔ ‘‘جیسے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔ ’’اب کب آؤگے خان؟ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں
پرندے کا سایہ
ماہر نفسیات عزیز شریفی نے بیگم فردوس کے کیس کی پیروی کی فائل اٹھائی اور کیس کا شروع سے مطالعہ کرنے لگے۔ گذشتہ کئی روز سے بیگم فردوس ان کے زیر مشاہدہ تھیں۔ چنانچہ ان کی شخصیت کے بعض خصائل شریفی کی نگاہ میں آ چکے تھے۔ بادی النظر میں بیگم فردوس کا کیس پیچیدہ
جہاز پر کیا ہوا؟
موٹرویسل گاندھی (Motor Vessel Gandhi) نام کا جہاز صوبہ گجرات کی مشہور بندرگاہ کانڈلہ سے، صبح سات بجے صوبہ بنگال کے تاریخی شہر کلکتہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ بحیرۂ عرب کی موجوں میں ہلکا سا تلاطم تھا، ذرا تیز ہوا بہہ رہی تھی، اکادکا سمندر پرندے جہاز کا
چوپال میں سنا ہوا قصہ
گاؤں کی چوپال ویران پڑی ہوئی ہے۔ پوہ کی رات ہے۔ برفیلے جھونکوں سے برگد پر ٹنگی قندیلیں جھول جھول جاتی ہیں۔۔۔ ایک بوڑھا گاؤں سے دور چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں اس کے فاختہ ہے اور دوسرے میں کتاب۔ پیچھے پیچھے اس کے ایک گدھا چلا جاتا ہے، پیٹھ پر جس کی ایک
کلر بلائنڈ
وہ ایک چھوٹا سا ہل اسٹیشن تھا۔ سیزن میں ٹورسٹ جب وہاں پہنچتے تو ہماری بے کیف زندگی میں تھوڑی سی گلابی گھل جاتی، بوجھل فضا تازہ اور جوان ہوجاتی۔ ورنہ وہاں کی ہر چیز سیاہ نم کمبل میں لپٹی ہوئی اداس مورت تھی۔ میں اس قصبے میں بسنے والے ان کم نصیبوں میں
پوسٹ کارڈ
ریل کی سیٹی سن کر لڑکا ہڑبڑاکر جاگا۔ کمرے میں مغربی کھڑکی سے چاند جھانک رہاتھا۔ رات کا آخری پہر تھا، سناٹے میں جھینگر کی سیٹی اور اس کے پس منظر میں پٹریوں پر ریل کے دوڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اس نے سرہانے رکھی ہوئی تپائی سے ٹارچ اٹھائی، سینے پر سے بلینکٹ
چاندنی کے سپرد
چاندنی مرطوب مزاج ہوتی ہے۔ زخم کے حق میں مضر ہوتی ہے۔ اگر کوئی زخمی یا زچہ کسی ایسی جگہ ہو جہاں چاندنی پہنچتی ہو اور مریض کو وہاں سے منتقل نہ کیا جاسکتا ہو تو سات پولے جلاکر ایک آدمی کو گواہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ہم نے اس زخمی کو تیرے سپرد کیا۔‘‘
مرگ انبوہ
خواجہ عزیزالرحمن کامکان جس گلی میں تھا، امتد اور زمانہ سے اس کی شکل و صورت میں عجیب قسم کی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ کبھی اس گلی میں راہگیروں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ گلی کاراستہ بازار کونکلتا تھا اور عوام الناس اسے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک
چوراہے پر ٹنگا آدمی
اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور پیر ٹخنوں سے۔ گلے میں رسی کا پھندا پڑا تھا اور وہ چوراہے پر جھول رہا تھا۔ اس کے جسم پر موجود لباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ٹیری کاٹ کی سفید قمیص اور ٹیری وول کی سلیٹی رنگ کی پتلون
کیلاش پربت
کیوب ازم کے نمونے پر بنی یہ پندرہ منزلہ عمارت جو آپ دیکھ رہے ہیں، کیلاش چند جی کی ملکیت ہے۔ اس کے پہلے منزلہ پر خود کیلاش چند جی رہتے ہیں۔ دوسرے پر ان کا بڑا لڑکا اویناش، تیسرے پر ان کا چھوٹا لڑکا دنیش اور چوتھے پر ان کی لڑکی مادھوری، پانچویں منزلہ کیلاش
ہاتھیوں کی قطار
اپنے کمرے کی مغربی سمت میں کھلنے والی کھڑکی کے پردے سرکانے کے بعد بیرام جی کو جب روشنی کا مینار نظر نہ آیا اور شمال مغرب کی سمت نظر دوڑانے پر انہیں مچھیروں کی جھونپڑیوں میں ٹمٹماتے چراغ بھی نظر نہ آئے تو انہوں نے پریشان ہوکر اپنی کمزور انگلیوں سے کھڑکی
یہ فاصلے یہ قربتیں
’’تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے کسی قدر حیرت سے کہا۔ ایک ناقابل یقین قسم کا تاثر اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے کہا، ’’تم خود ہی دیکھ لو، ہم وہیں جارہے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی گردن کو دو ایک مرتبہ نفی میں دائیں بائیں حرکت دی، گویا میری بات پر اسے اعتبار
دیر دس سال کی
’’تم مری داس تو نہیں؟‘‘ اس نے لالٹین کی لو اونچی کی اور لالٹین اس کے چہرے کے قریب لاکر پوچھا۔ ’’ہاں میں مری داس ہی ہوں۔ لیکن تم نے کیسے پہچانا؟‘‘ وہ اپنی جھکی ہوئی پیٹھ پر سے نیچے سرکتا ہوا بوجھ سنبھالتا ہوا بولا۔ ’’میں پچھلے دس سال سے تمہارا منتظر
سزائے موت: ایک لوک کتھا
’’ہجور! آخری خواہش تو بس یہ ہے کہ مجھے آپ پھانسی پر لٹکانے سے پہلے بہت سا دال بھات کھانے کو دے دیں۔‘‘ انگریز مجسٹریٹ نے جیل کے سپریٹنڈنٹ کو مجرم کی آخری خواہش پوری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ’’کورٹ از اڈجرنڈ‘‘ کہہ کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پر ماجو
خبر رساں کی حیرانی
چوں کہ میں صحافت کے پیشے سے متعلق ہوں، اس لیے میں نے کہانی لکھنے کے ’گر‘ بھی سیکھ لیے ہیں۔ چناں چہ ابھی حال ہی میں پیش آئے ہوئے واقعات کو میں کہانی کی سی ترتیب سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔ یہ معذرتی بیان نہیں، بلکہ اعتراف ہے اس حقیقت کا کہ بہت ممکن ہے کہ
قیدی
قیدیوں کے پیروں میں بیڑیاں ہیں اور ہاتھوں میں کدالیں۔ ایک لمحہ میں کدالیں فضا میں بلند ہوتی ہیں، دوسرے میں زمین کے پتھریلے سینے میں اترجاتی ہیں۔ قطعی میکانیکی طور پر یہ کام ہو رہا ہے۔ گجر بجتے ہی ایک وین ہمارے مکان سے کچھ فاصلے پر آکر رکتی ہے۔ جمعدار
چڑیوں نے کہا عافیت ہے
طاق میں ڈیوٹ جل رہا تھا، ہلکی مگر سرد ہوا کے جھونکوں سے اس کی لو لرز لرز جاتی تھی۔ میں خواجہ کے آستانے سے قوالی سن کر سرائے کو لوٹا تھا۔ میں ابھی اپنی کھولی کے دروازے پر لگا ہوا قفل کھولنے ہی جارہا تھا کہ میری نظر پاس کی کھولی پر پڑگئی۔ میلی میلی روشنی
ٹیڈی بیر نے کیا سوچا
سامنے کھیت ہیں اور ان کے پیچھے پہاڑ۔ کھیتوں میں فصل لہلہا رہی ہے اور پہاڑوں پر بادل منڈلا رہے ہیں۔ رنگ برنگے پرندے کھیتوں کے کسی حصے سے اچانک اڑتے ہیں اور حلقہ باندھ کر پھرتے ہیں اور پھر نیچے اترکر روپوش ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہوا فرحت بخش جھونکوں کی صورت
مہر بند
میں عرصے سے ہایپر ٹینشن HYPER TENSION کا شکار تھا۔ دراصل میں عمر کی جس منزل میں تھا اس منزل پر پہنچ کر لوگوں کو عموماً اس قسم کے عارضے ہوجایا کرتے ہیں۔ شہر میں رہنے اور سیڈینٹری لائف SEDENTARY LIFE جینے کا اتنا بھی جزیہ ادا نہ کریں! طبیب نے کئی قسم
کابلی والا کی واپسی
کابلی والے کے ہونٹ لرزے، ’’اچھا صاحب، اب میں چلوں۔۔۔ وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔‘‘ ’’ہاں خان۔‘‘ جیسے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔ ’’اب کب آؤگے خان؟‘‘ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے
فضول کاغذات میں ملے تین خط
مجھ باسٹھ سال کے آدمی کو یوں بھی روزانہ کیا کام ہوتے ہیں جو کل کوئی کام ہوتا۔ چناں چہ پرانے کاغذات کے پلندے لے کر بیٹھ گیا، ان میں چالیس پینتالیس سال پرانے بجلی او رٹیلی فون کے بل، مکان کے کرایے کی رسیدیں، رشتے داروں کی شادیوں کے رقعے، بزرگوں کی اموات
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1877
-