- کتاب فہرست 185676
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال2000
طرز زندگی22 طب926 تحریکات297 ناول4847 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار66
- دیوان1463
- دوہا50
- رزمیہ106
- شرح200
- گیت62
- غزل1186
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1600
- کہہ مکرنی6
- کلیات690
- ماہیہ19
- مجموعہ5047
- مرثیہ384
- مثنوی845
- مسدس58
- نعت566
- نظم1250
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی17
- قطعہ65
- رباعی300
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام34
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
انور قمر کے افسانے
مرگ انبوہ
خواجہ عزیزالرحمن کامکان جس گلی میں تھا، امتد اور زمانہ سے اس کی شکل و صورت میں عجیب قسم کی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ کبھی اس گلی میں راہگیروں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ گلی کاراستہ بازار کونکلتا تھا اور عوام الناس اسے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک
کابلی والا کی واپسی
کابلی والے کے ہونٹ لرزے۔ ’’اچھا صاحب اب میں چلوں۔۔۔ وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔‘‘ ’’ہاں خان۔ ‘‘جیسے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔ ’’اب کب آؤگے خان؟ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں
چوپال میں سنا ہوا قصہ
گاؤں کی چوپال ویران پڑی ہوئی ہے۔ پوہ کی رات ہے۔ برفیلے جھونکوں سے برگد پر ٹنگی قندیلیں جھول جھول جاتی ہیں۔۔۔ ایک بوڑھا گاؤں سے دور چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں اس کے فاختہ ہے اور دوسرے میں کتاب۔ پیچھے پیچھے اس کے ایک گدھا چلا جاتا ہے، پیٹھ پر جس کی ایک
سزائے موت: ایک لوک کتھا
’’ہجور! آخری خواہش تو بس یہ ہے کہ مجھے آپ پھانسی پر لٹکانے سے پہلے بہت سا دال بھات کھانے کو دے دیں۔‘‘ انگریز مجسٹریٹ نے جیل کے سپریٹنڈنٹ کو مجرم کی آخری خواہش پوری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ’’کورٹ از اڈجرنڈ‘‘ کہہ کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پر ماجو
پرندے کا سایہ
ماہر نفسیات عزیز شریفی نے بیگم فردوس کے کیس کی پیروی کی فائل اٹھائی اور کیس کا شروع سے مطالعہ کرنے لگے۔ گذشتہ کئی روز سے بیگم فردوس ان کے زیر مشاہدہ تھیں۔ چنانچہ ان کی شخصیت کے بعض خصائل شریفی کی نگاہ میں آ چکے تھے۔ بادی النظر میں بیگم فردوس کا کیس پیچیدہ
جہاز پر کیا ہوا؟
موٹرویسل گاندھی (Motor Vessel Gandhi) نام کا جہاز صوبہ گجرات کی مشہور بندرگاہ کانڈلہ سے، صبح سات بجے صوبہ بنگال کے تاریخی شہر کلکتہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ بحیرۂ عرب کی موجوں میں ہلکا سا تلاطم تھا، ذرا تیز ہوا بہہ رہی تھی، اکادکا سمندر پرندے جہاز کا
کلر بلائنڈ
وہ ایک چھوٹا سا ہل اسٹیشن تھا۔ سیزن میں ٹورسٹ جب وہاں پہنچتے تو ہماری بے کیف زندگی میں تھوڑی سی گلابی گھل جاتی، بوجھل فضا تازہ اور جوان ہوجاتی۔ ورنہ وہاں کی ہر چیز سیاہ نم کمبل میں لپٹی ہوئی اداس مورت تھی۔ میں اس قصبے میں بسنے والے ان کم نصیبوں میں
قیدی
قیدیوں کے پیروں میں بیڑیاں ہیں اور ہاتھوں میں کدالیں۔ ایک لمحہ میں کدالیں فضا میں بلند ہوتی ہیں، دوسرے میں زمین کے پتھریلے سینے میں اترجاتی ہیں۔ قطعی میکانیکی طور پر یہ کام ہو رہا ہے۔ گجر بجتے ہی ایک وین ہمارے مکان سے کچھ فاصلے پر آکر رکتی ہے۔ جمعدار
کابلی والا کی واپسی
کابلی والے کے ہونٹ لرزے، ’’اچھا صاحب، اب میں چلوں۔۔۔ وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔‘‘ ’’ہاں خان۔‘‘ جیسے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔ ’’اب کب آؤگے خان؟‘‘ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے
ٹیڈی بیر نے کیا سوچا
سامنے کھیت ہیں اور ان کے پیچھے پہاڑ۔ کھیتوں میں فصل لہلہا رہی ہے اور پہاڑوں پر بادل منڈلا رہے ہیں۔ رنگ برنگے پرندے کھیتوں کے کسی حصے سے اچانک اڑتے ہیں اور حلقہ باندھ کر پھرتے ہیں اور پھر نیچے اترکر روپوش ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہوا فرحت بخش جھونکوں کی صورت
چوراہے پر ٹنگا آدمی
اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور پیر ٹخنوں سے۔ گلے میں رسی کا پھندا پڑا تھا اور وہ چوراہے پر جھول رہا تھا۔ اس کے جسم پر موجود لباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ٹیری کاٹ کی سفید قمیص اور ٹیری وول کی سلیٹی رنگ کی پتلون
گرمی (Syphilis)
ایک بے ضرر سی پھنسی چند روز میں گھاؤ کی شکل اختیار کرچکی تھی اور وہ گھاؤ اب ایک رستے ناسور میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک کیکڑا نما ناسور کہ جس کے بیچ میں ذرا سا شگاف تھا اور اس شگاف کے اطراف کی جلد سخت ہوچکی تھی اور سرخ بھی! بھاری پیروں سے وہ پیشاب خانے
یہ فاصلے یہ قربتیں
’’تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے کسی قدر حیرت سے کہا۔ ایک ناقابل یقین قسم کا تاثر اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے کہا، ’’تم خود ہی دیکھ لو، ہم وہیں جارہے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی گردن کو دو ایک مرتبہ نفی میں دائیں بائیں حرکت دی، گویا میری بات پر اسے اعتبار
گم شدہ باپ
ہم تمام بہن بھائیوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ وہ ہمارا باپ نہیں ہے۔ تو پھر، کون ہے؟ یہ ایک راز تھا اور ہم حقیقت سے ناواقف تھے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ہمارے گھر میں باپ کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ ہماری ماں اسی کے کمرے میں سویا کرتی تھی۔ موروثی جائیداد بھی اسی کے
کیلاش پربت
کیوب ازم کے نمونے پر بنی یہ پندرہ منزلہ عمارت جو آپ دیکھ رہے ہیں، کیلاش چند جی کی ملکیت ہے۔ اس کے پہلے منزلہ پر خود کیلاش چند جی رہتے ہیں۔ دوسرے پر ان کا بڑا لڑکا اویناش، تیسرے پر ان کا چھوٹا لڑکا دنیش اور چوتھے پر ان کی لڑکی مادھوری، پانچویں منزلہ کیلاش
ہاتھیوں کی قطار
اپنے کمرے کی مغربی سمت میں کھلنے والی کھڑکی کے پردے سرکانے کے بعد بیرام جی کو جب روشنی کا مینار نظر نہ آیا اور شمال مغرب کی سمت نظر دوڑانے پر انہیں مچھیروں کی جھونپڑیوں میں ٹمٹماتے چراغ بھی نظر نہ آئے تو انہوں نے پریشان ہوکر اپنی کمزور انگلیوں سے کھڑکی
پوسٹ کارڈ
ریل کی سیٹی سن کر لڑکا ہڑبڑاکر جاگا۔ کمرے میں مغربی کھڑکی سے چاند جھانک رہاتھا۔ رات کا آخری پہر تھا، سناٹے میں جھینگر کی سیٹی اور اس کے پس منظر میں پٹریوں پر ریل کے دوڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اس نے سرہانے رکھی ہوئی تپائی سے ٹارچ اٹھائی، سینے پر سے بلینکٹ
فضول کاغذات میں ملے تین خط
مجھ باسٹھ سال کے آدمی کو یوں بھی روزانہ کیا کام ہوتے ہیں جو کل کوئی کام ہوتا۔ چناں چہ پرانے کاغذات کے پلندے لے کر بیٹھ گیا، ان میں چالیس پینتالیس سال پرانے بجلی او رٹیلی فون کے بل، مکان کے کرایے کی رسیدیں، رشتے داروں کی شادیوں کے رقعے، بزرگوں کی اموات
مہر بند
میں عرصے سے ہایپر ٹینشن HYPER TENSION کا شکار تھا۔ دراصل میں عمر کی جس منزل میں تھا اس منزل پر پہنچ کر لوگوں کو عموماً اس قسم کے عارضے ہوجایا کرتے ہیں۔ شہر میں رہنے اور سیڈینٹری لائف SEDENTARY LIFE جینے کا اتنا بھی جزیہ ادا نہ کریں! طبیب نے کئی قسم
چاندنی کے سپرد
چاندنی مرطوب مزاج ہوتی ہے۔ زخم کے حق میں مضر ہوتی ہے۔ اگر کوئی زخمی یا زچہ کسی ایسی جگہ ہو جہاں چاندنی پہنچتی ہو اور مریض کو وہاں سے منتقل نہ کیا جاسکتا ہو تو سات پولے جلاکر ایک آدمی کو گواہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ہم نے اس زخمی کو تیرے سپرد کیا۔‘‘
چڑیوں نے کہا عافیت ہے
طاق میں ڈیوٹ جل رہا تھا، ہلکی مگر سرد ہوا کے جھونکوں سے اس کی لو لرز لرز جاتی تھی۔ میں خواجہ کے آستانے سے قوالی سن کر سرائے کو لوٹا تھا۔ میں ابھی اپنی کھولی کے دروازے پر لگا ہوا قفل کھولنے ہی جارہا تھا کہ میری نظر پاس کی کھولی پر پڑگئی۔ میلی میلی روشنی
دیر دس سال کی
’’تم مری داس تو نہیں؟‘‘ اس نے لالٹین کی لو اونچی کی اور لالٹین اس کے چہرے کے قریب لاکر پوچھا۔ ’’ہاں میں مری داس ہی ہوں۔ لیکن تم نے کیسے پہچانا؟‘‘ وہ اپنی جھکی ہوئی پیٹھ پر سے نیچے سرکتا ہوا بوجھ سنبھالتا ہوا بولا۔ ’’میں پچھلے دس سال سے تمہارا منتظر
join rekhta family!
-
ادب اطفال2000
-