- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
انور سجاد کے افسانے
گائے
ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اب گائے کو بوچڑ خانے میں دے ہی دیا جائے۔ اب اس کا دھیلا نہیں ملنا۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا۔ ان مٹھی بھر ہڈیوں کو کون خریدے گا۔ لیکن بابا مجھے اب بھی یقین ہے۔ اگر اس کا علاج باقاعدگی سے۔ چپ
چوراہا
یہ دو سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں اور میں۔ اس نے بس سٹینڈ کے جنگلے سے اپنی کہنیاں ہٹائیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور میں، اچھا تو جس جگہ پر یہ سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں ان سڑکوں کی دونوں طرف گڑھے ہیں اور یہ بیچارے
کونپل
بھرے بھرے چہرے پر جابرانہ انداز میں کھنچی آنکھیں، بھنچے ہونٹ، سیاہ نکٹائی کی امریکی گرہ میں پھنسی دوہری گردن، سیاہ کوٹ کی دائیں طرف، سینے کی جیب میں ریشمی رومال جس کا سرخ رنگ وقت کے ساتھ ساتھ فیڈ ہوتااب پیازی سا معلوم ہوتا ہے۔ داخلی دروازے کے سامنے دیوار
جنم دن
’’اتنے شریف باپ کے بیٹے ہوکر بازار میں بنٹے کھیلتے ہو۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘ ’’باپ تو اس کا بہت مشہور آدمی ہے۔‘‘ ’’او جی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کے اتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔۔۔ لیکن بیٹے کو دیکھیے پتنگ بازی کرتا ہے۔‘‘ ’’آوارہ۔۔۔ ضرور باپ
سنڈریلا
کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر ایک لمحہ ہے، کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر سو سال ہے، کبھی وہ سوچتی: وہ عمر کی قید میں نہیں، یا شاید ابھی اسے جنم لینا ہے۔ وہ اس کمرے میں سدا سے قید تھی اور اس امید میں تھی کہ کوئی آئے اور اسے اس بطن سے جنوائے۔ پھر وہ سوچتی، کوئی
۱۳
میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے سامنے سر جھکائے لوگوں کی قطار میں کھڑا ہوں۔ سب سے اگلے آدمی کی ناف سے لے کر سب سے پچھلے آدمی کی ناف تک ایک سرنگ ہے۔ اس تاریک سرنگ میں کیڑے رینگ رہے ہیں۔ میں سرنگ کی دیواروں کو ٹٹولتا، ٹھوکریں کھاتا دفتر کی کھڑکی تک پہنچا
پتھر، لہو، کتا
تاریک رات۔ وہ شخص جس کی لوئی میں رات کا عکس ہے، جس کی زبان پر کانٹے اور پاؤں میں آبلے ہیں، جس کے جسم سے بہتا مڑکا پیاسی زمین پر ٹپکتا ہے، چاروں اور سے سمٹ کر آیا ہے اور اس کھنڈر کی طرف گامزن ہے جہاں ایک سیاہ پتھر پڑا ہے، جو کہ وقت سے پہلے موجود تھا۔
وادیوں کی دھوپ
جب تک سورج ایک خاص زاویے پر نہیں آتا، وادیاں تاریک رہتی ہیں۔ سورج آنکھ کی ایک جھپکی میں اس زاویے کے کونے میں غروب ہو جاتا ہے اور وادیوں میں پھر بند آنکھ کی تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔ اس وقت سورج اسی خاص زاویے پر ہے اور ابھی پلکوں کی چلمنیں نہیں گریں اور
ہوا کے دوش پر
وہ اندھا دھند ہوائی جہاز جا رہا تھا۔ اس کے کانوں میں اسکواڈرن لیڈر کی آواز گونج رہی تھی کہ وہ اتنے فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ اس کی رفتار اتنے سومیل فی گھنٹہ ہے اور وہ کافی اڑان کر چکا ہے اس لیے اسے اب نیچے اتر آنا چاہیے۔ مگر اس نے سنی ان سنی
صلیب کے سائے میں
یہ کانونٹ اس پہاڑی پر واقع تھا جو اوروں سے بالکل الگ تھلگ تھی۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پہاڑی میں راہبہ بن کر ہنگاموں کی دنیا سے نکل آئی ہو۔ ہنگاموں کی دنیا اور اس پہاڑی کے درمیان ایک پگڈنڈی نما ٹوٹی پھوٹی کولتار کی سڑک تھی جس پر چیڑ کے خشک
آنکھ اور سایہ
کوٹھری: 8.5X10 فٹ آہنی دروازہ: 5X3 فٹ آہنی دروازے کے بالکل سامنے کھڑکی: 3X2 فٹ کھڑکی کی سلاخیں، قطر:2 انچ سلاخوں سے باہر تاریکی آزاد، سلاخوں کے اندر تاریکی قید۔ ابھی تھوڑی دیر میں جب پرندے آسمان پر اندھیرے کا تعاقب کریں گے تو کچھ لوگ آئیں
رشتے
’’روشی۔ آج ڈاکٹر نے تم سے کیا کہا تھا؟ مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘ ’’کچھ نہیں بھیا۔ کہتا تھا کہ آپ اب جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ ’’یہ بات تو میرے سامنے بھی کہہ سکتا تھا۔‘‘ ’’جج۔ جی بھیا۔ سچی، یہی کہا تھا۔‘‘ ’’ہوں۔۔۔ روشی! مجھے کب تک آرام آ
سیاہ جھنڈا
سفید گنبد کی چوٹی پر سیاہ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور اس سیاہ جھنڈے کی چھاؤں میں زندگی مجسم دعا بن کر دروازوں سے لپٹی ہوئی تھی۔ انسانوں کا سیلاب تھا کہ امڈا چلا آتا تھا کیونکہ آج ان کے پیر و مرشد حضرت کاڑے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے عرس کا پہلا
سب سے پرانی کہانی
تیز ہوا اور بارش، طوفان۔ رات بہت تاریک تھی۔ زمین اور آسمان میں کوئی فرق نہیں تھا، ایک سیاہ چادر تھی جو آسمان بھی تھا اور زمین بھی۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی تو اس سیاہ چادر پر پھڑپھڑاتے ہوئے گیلے سیاہ درخت ذرا واضح ہو جاتے تھے لیکن وہ درختوں کے نیچے تاریک
کپاس کا دل
پہلے سیمی اور پھر منی جب انہوں نے میرے حسین خوابوں کو چور چور کر دیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے زندگی ہمارے حسین خوابوں کی لاشوں پر بنی ہوئی ایک ایسی عمارت ہے، جس کی آخری منزل پر موت کھڑی مسکرا رہی ہے اور ہمارے خدا نے ہمیں صرف اس لیے زندگی عطا کی ہے
دیوار اور دروازہ
رات، دس بجنے میں پانچ منٹ۔ اس نے دروازے کی اوٹ میں ہوکر سوچا، ایک دفعہ اس دروازے سے باہر قدم رکھ لوں پھر میں آزاد ہی آزاد ہوں۔ لیکن ہسپتال کے پورچ میں بڑی تیز روشنی تھی اور چوکیدار ہاتھ میں ڈانگ لیے ٹہل رہا تھا۔ پورچ سے ذرا آگے سرمئی سے اندھیرے
ہتک
بدرے نے چاروں طرف دیکھا، گلی میں سبھی لوگ چارپائیوں پر مردوں کی طرح سو رہے تھے۔ سوائے کتوں کے ایک جوڑے کے اور کوئی زندہ نہ تھا۔ بجلی کے کھمبے کے منہ سے بہتی ہوئی روشنی اس کھڑکی والی دیوار تک پہنچ کر خشک ہوجاتی تھی۔ ایک نے دوسرے کتے کے کان میں سرگوشی
اجنبی
لڑکی نے اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی نقاب اتار کے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں دائیں طرف اور سامنے کے بند کواڑوں پر دستک دیتی ہوئی بائیں طرف کے دروازے میں داخل ہوگئیں۔ لڑکے نے مڑ کراس کی للچائی ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔ ’’یہ باورچی خانہ ہے۔‘‘ ’’جی۔‘‘
پیپل سے محبت کے ساتھ
اس وقت مال روڈ ویران ہوگئی ہے۔ اونگھتی ہوئی نیلی اور پیلی روشنیوں میں اکادکا آوارہ چند لوگ ہیں، جو اپے غنودگی میں ڈوبے ہوئے سایوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ جب روشنی ان کے سامنے ہوتی ہے تو سائے ان کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔ مصنوعی روشنیوں میں زندگی کی ایسی ڈور
واپسی، دیوجانس، روانگی
شیشم کے اس پیڑ سے دور، بہت دور، صدیاں بعد پہلی مرتبہ شہر کی سب سے بری شاہراہ کے پچھمی سرے پر شور بلند ہوتا ہے، جس کی آواز فی الحال اس پیڑ کے آس پاس نہیں پہنچتی۔ پیڑ کی شاخوں پر پھدکتے، چیختے، چلاتے پرندوں میں تھورے تھوڑے وقفے بعد اور پرندوں کا اضافہ
پرومیتھیئس
میز پر چندکاغذ، بغیر پتلیوں کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں، اس کے ہاتھ میں قلم کی انی پرپتلیاں۔ میں کیا لکھوں؟ وہ شفاف کاغذوں سے نظر ہٹاتا ہے۔ نہ چاہنے کے باوجود اس کی نظریں دیوار پر جاپڑتی ہیں۔ ایک بوسیدہ فریم میں چھ نو سائز کی تصویر، کمرے میں لگی واحد
شیرازے
چند لوگوں کو سرخ گلاب اگانے سے دلچسپی ہے۔ چند لوگ بھی نہیں، صرف الف سرخ گلاب اگاتا ہے۔ الف کے سر کے بال سفید برف ہیں۔ چہرے پر صدیاں تک جھریوں کا نشان نہیں۔ اس کی چمکیلی آنکھیں سامنے کی چیز کو چیرتی، پار دیکھتی ہیں۔ اس کے سانس تک سے گلاب کی خوشبو آتی
پیارے جمی
۲۷ نومبر ۱۹۴۴ء پیارے جمی، اس وقت سرد آسمان پر جڑے ہوئے ستاروں کی آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور باغ میں یوکلپٹس کے درختوں نے کہرے کا لباس پہن لیا ہے۔ نینا ابھی رو رو کے سوئی ہے۔ امی جی اور گڈو بھی اپنے بستروں میں چلی گئی ہیں اور وہاں میرا بستر بھی مجھ
نہ مرنے والا
وہ نیچے پان والے کی دکان پر ریڈیو پر پورے اعلانات سنے بغیر ہی کمرے میں لوٹ آیا تھا۔ نالیوں میں بہتا ہوا خون اس کے روئیں روئیں میں پسینہ بن کر تھرک رہاتھا۔ کمرے کا تالا کھولتے کھولتے وہ جھنجلا گیا۔ تالا ہمیشہ چابی کے پہلے پھیر میں کھل جایا کرتا تھا لیکن
زرد کونپل
کچھ ایسے ہی دنوں میں جب کہ شبنم میں گھلی ہوئی صبحیں اپنے لحاف اتار کے نیم گرم دنوں کے صندوقچوں میں بند کر رہی تھیں۔ کچھ ایسے ہی دنوں میں جب باہر باغیچے کی ننھی ننھی کیاریوں میں نوزائیدہ کلیوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں اور نرم نرم سبز مائل زرد کونپلیں زندگی
چھٹی کا دن
دوپہربچے چڑیا گھر کے دروازے کے ساتھ خوانچے والے سے چنے خریدتے ہیں اور اچھلتے کودتے اپنے اپنے ماں باپ کے ساتھ چڑیا گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ سڑک کے پار کھڑی عورت ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ ساتھ کھڑے مرد کو دیکھتی ہے۔ مرد کی نگاہیں آہنی دروازے کی
تیسری تکبیر
بازار کی طرف دروازہ کھول کر میں بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ پروفیسر اسد کی بیوی آئی اور مجھے سلام کرکے بڑی تیزی سے اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد میری بیوی نے آکر مجھے بتایا کہ پروفیسر اسد کے ہاں اس کے بیٹے مجی کو پکڑنے کے لیے پولیس آئی ہے۔ اس نے اس
پرندے کی کہانی
یوبلڈی باسٹرڈ۔ دربان نے زمین پر زہرتھوکا، آستین سے منہ پونچھا اور نوٹ والی مٹھی جیب میں ڈال لی۔ اس کی نظریں باہر دالان کی طرف کھلتے دروازے پر تھیں۔ جاتے جاتے سفید فام سیاح، یا، س ف س نے گھوم کر ہاتھ ہلاکے الوداع کہا۔ دربان کی زبان سے پھر زہر ٹپکا، اس
سونے کی تلاش
اس کی نظریں سامنے گولیوں سے چھدی ہوئی بھول بھلیاں میں بھٹک رہی تھیں۔ سارے راستے سینے پر تھے۔ باقی سارے جسم پر کوئی نشان نہ تھا۔ وہ ان بھول بھلیاں میں اپنی نگاہ تلاش کرتا ہوا اپنی سیٹ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ گیلری کی سیڑھیاں اترنے لگا۔ ’’ڈاکٹر صاحب!
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-