- کتاب فہرست 183877
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب868 تحریکات290 ناول4293 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1075
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات670
- ماہیہ19
- مجموعہ4828
- مرثیہ374
- مثنوی813
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ178
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
اسد محمد خاں کے افسانے
باسودے کی مریم
یہ ایک دل کو چھو لینے والی جذباتی کہانی ہے۔ مریم گھر میں کسی بزرگ کی حیثیت سے رہتی ہے اور اس کا بیٹا ممدو باسودے میں رہتا ہے۔ مریم حج پر جانے کی خواہش مند ہے جس کے لیے وہ پائی پائی جمع کرتی ہے۔ حج پر جانے کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں، ٹکٹ کا انتظار ہے، جبھی ممدو کی بیماری کا خط آتا ہے۔ مریم سارا مال و متاع جمع کر روتی بسورتی باسودا روانہ ہو جاتی ہے۔ ممدو کو لے کر وہ اس ڈاکٹر، اس ہسپتال بھٹکتی ہے اور پھر ممدو کو لے کر گھر واپس آجاتی ہے، بالآخر ممدو کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ایک بار پھر سے مریم حج کے لیے تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔ خدا نے تو اس کے لیے کوئی اور ہی فیصلہ کر رکھا ہے، اس بار بھی وہ حج پر نہیں جا پاتی ہے کہ خدا کا بلاوا آ جاتا ہے۔
شہر کوفے کا ایک آدمی
کربلا کے تاریخی واقعات پر مبنی یہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ ایک شخص سوچتا ہے کہ اگر وہ جنگ کربلا کے وقت ہوتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن موجودہ وقت میں حق کے لیے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ خاموش ہے۔ در اصل ہر شخص مصلحت اور منافقت کے کوفے میں آباد ہے اور چاہتے ہوئے بھی حق کی اس جنگ کا حصہ دار نہیں ہو پا رہا ہے۔
کھڑکی
میں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ
نصیبوں والیاں
یہ ددی بائی طوائف کی داستان ہے، جس کی نگرانی میں بہت سی لڑکیاں رہتی ہیں جو اپنی کمائی ددی بائی کے پاس جمع کرتی رہتی ہیں۔ ایک دن آفت ناگہانی ددی بائی کی موت ہو جاتی ہے اور اسکی تجوری کی چابی اس علاقے کے داروغہ کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ تجوری جب کھولی جاتی ہے تو اس میں چند روپوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں برآمد ہوتا ہے۔
غصے کی نئی فصل
شیر شاہ سوری کے سلطنت کے ایک باشندے کی کہانی جس کا تعلق شیر شاہ کے ہی گاؤں سے ہے۔ ایک دن وہ شخص شیر شاہ سے ملنے جانے کا ارادہ کرتا ہے اور بطور نذرانہ گاؤں کی مٹی ایک سفید کپڑے میں باندھ لیتا ہے۔ دار السلطنت پہنچ کر وہ جس سرائے میں ٹھہرتا ہے، وہاں رات میں اس کا سامنا ایک عجیب و غریب واقعہ سے ہوتا ہے جس سے وہ اس قدر بدگمان ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ سے ملے بغیر واپس آ جاتا ہے۔
سوروں کے حق میں ایک کہانی
یہ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ قدرتی مناظر کی عکاسی، ساون کے برستے بادل جو کئی گنگا بنا دیتے ہیں اور یہ سب نیچے بارہ ماسی تال بناتے ہیں۔ تال میں سنگھاڑے، گھاس اور پتوار ہیں۔ تال میں ایک آدمی کھڑا ہے۔ وہ آدمی ہے سور نہیں۔ لیکن انھیں سننے والوں اور سوروں کے درمیان فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔
جانی میاں
اس کہانی کے تین اہم کردار ریوا، جبار اور جانی میاں ہیں۔ ریوا طوائف ہے، جانی میاں اس کا چاہنے والا اور جبار جانی میاں کا دوست ہے، لیکن تینوں خفیہ محکمہ سے جڑے ہوئے ہیں اور راجستھان کے آس پاس کے علاقے میں موجود افیون کے سنڈیکیٹ کو گرفتار کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔
مردہ گھر میں مکاشفہ
مردہ گھر میں مردوں کی رکھوالی کرنے والے شخص کے غیر معمولی برتاؤ عیاری مکاری اور بے حسی کو اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے جو مردوں کے اعضاء بیچ دیتا ہے لیکن خود کو نیک، ایماندار اور ذہنی طور پر غیر متوازن ظاہر کرنے کے لیے مردوں کے اوپر چڑھ چڑھ کر اپنے مبہم سے عمل کی انجام دہی کے لیے داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔
ایک بے خوف آدمی کے بارے میں
ایک معمولی کلرک کی کہانی ہے جس نے اپنے شوق سے اردو زبان سیکھی اور اس سے محبت کی۔ یہاں تک کہ اپنی مادری زبان پشتو کے بجائے اردو میں ہی کہانیاں لکھیں۔ نفع و نقصان کی کشمکش سے بلند ہو کر اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں قربان کرکے اس نے اپنی جمع پونجی لگا کر کتاب چھپوائی۔ اس کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قومی زبان سے محبت کے اس ثبوت سے اسے چھوٹی موٹی ابدیت حاصل ہو جائے۔
سرکس کی سادہ سی کہانی
سرکس کے کرداروں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی تہہ میں معاشرے کی سیاسی پینترے بازیوں کو پیش کیا گیا ہے، رنگ ماسٹر، آسو بلا اور وہاں موجود دوسرے کرداروں کے رویے جس طرح ظاہر کچھ اور باطن میں کچھ اور ہیں ٹھیک اسی طرح معاشرے میں سیاسی مفاد کے لیے لوگ رنگ اور مزاج بدل لیتے ہیں۔
چاکر
قحط سالی کے زمانے میں لوگوں کی بےبسی، ظلم، غیر انسانی حرکات اور روحانیت کی بلندی تک پہنچنے کے احوال پیش کیے گئے ہیں۔ فضل علی قحط کے زمانے میں وڈیروں کے ظلم و جبر اور انجام کی پروا کیے بغیر حصول علم کے لیے نکل جاتا ہے اور وہاں سے واپس آکر خود کو پوری طرح اپنے استاد کی تعلیمات کے لیے وقف کر دیتا ہے۔
ایک بلیک کومیڈی
اس افسانے میں ٹی وی سیریل میں پیش کیے جانے والے واقعات کی بے معنویت اور ہلکے پن پر طنز کیا گیا ہے اور جرنلزم کی دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے تاریک گوشوں پر بھی ہلکی سی ضرب لگائی گئی ہے۔
وارث
قصبائی پولیس لائنز تھی، جس کے سامنے میدان میں جیسے چھوٹا موٹا بازار لگ گیا تھا۔ سارہ بانوں نے اپنے جانوروں پر بندھے کجاوے، کاٹھیاں، رسے کھولنا اور انھیں چارے پانی کے لیے آزاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہم دو انسان، مویشیوں کے اس دائرے کے بیچ زنجیریں پہنے
گھڑی بھر کی رفاقت
افسانہ شیر شاہ سوری اور وطن سےعقیدت و محبت اور جذباتی لگاؤ پر مبنی ہے، عیسی خان ماضی کے رکھ رکھاؤ اور اقدار کی بقا کے لیے کوشاں ہے۔۔۔ شیر شاہ سوری سے وابستہ تعلقات کی یاد یں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-