- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
آصف فرخی کے افسانے
سمندر کی چوری
ابھی وقت تھا۔ پانی اور آسمان کے بیچ میں روشنی کی وہ پہلی، کچی پکی، تھرتھراتی ہوئی کرن پھوٹنے بھی نہ پائی تھی کہ شہر والوں نے دیکھا سمندر چوری ہوچکا ہے۔ دن نکلا تھا نہ سمندر کے کنارے شہر نے جاگنا شروع کیا تھا۔ رات کا اندھیرا پوری طرح سمٹا بھی نہیں تھا
پرندے کی فریاد
پرندے کی فریاد ادراک ذات کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک پرندہ بیچنے والا شخص سگنل لائٹ کے انتظار میں کھڑی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں سے فریاد کرتا ہے کہ وہ انھیں خرید کر اڑا دیں، یہ دعا دیں گے۔ پرندہ فروش ایک گاڑی میں بیٹھے شخص کو زبردستی ایک پنجرہ تھما دیتا ہے وہ جلدی سے پیمنٹ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ پھر تقریباً روزانہ اس شخص کے گلے پڑ ایک دو پنجرے اس کے سر منڈھ دیتا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد ان پرندوں کو اڑاتے ہوئے اسے بچپن میں پڑھی ہوئی نظم پرندے کی فریاد یاد آ جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی بھی وقت، سماجی بندھن اور ذمہ داریوں کے پنجرے میں قید ہے۔
سمندر
کچھوے کی پیدائش اور اس کی مکمل زندگی کا احاطہ کرتی یہ کہانی انسانی زندگی کے ارتقا کی تمثیل ہے۔ واحد متکلم مکمل چاند کی رات میں ساحل پر کچھووں کے آنے اور بچہ جننے کا پورا عمل دیکھنے کی غرض سے جاتا ہے۔ سمندر کی پرشور موجوں کو دیکھ کر وہ زندگی کے رازہائے سربستہ پر غور کرنے میں اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ سمندر سے کچھوے کے نکلنے کا لمحہ گزر جاتا ہے۔ اپنے خیالوں کی دنیا سے وہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کھچوے ریت ہٹا کر اپنا بھٹ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ بھٹ بنا کر اس کے انڈے دینے اور پھر سمندر میں اس کے واپس جاننے کا پورا عمل دیکھنے کے بعد وہ گھر واپس آجاتا ہے۔کچھوے کے ایک چھوٹے بچے کو اٹھا کر جس طرح راوی چومتا ہے، اس سے اس کے مامتا کے جذبہ کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔
ویلنٹائن
یہ افسانہ مذہبی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ ایک انتہا پسند ٹیچر معصوم سرمد کو اسکول میں بتاتی ہے کہ ویلنٹائن منانا کافروں کا کام ہے اور اس کا گناہ ہوگا۔ سرمد اپنی کزن آمنہ کو ویلنٹائن کا میسج کر چکا ہے، اسی وجہ سے وہ احساس ندامت میں غرق ہو کر روتا ہے۔ والد سمجھاتے ہیں کہ تم معصوم ہو، بچوں کو گناہ نہیں ہوتا۔ تو وہ کسی قدر اپنے غم سے باہر نکلتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد اپنے والدین سے کہتا ہے کہ آمنہ کو محرم کے ہالیڈے پر مینی ہیپی ریٹرنز آف سیلیبریشن کا میسیج بھیجوں گا۔
سمندر کی بیماری
افسانہ ماحولیاتی آلودگی پر مبنی ہے۔ سمندر کی سیر کرنے والوں کی بدولت ساحلی علاقے میں آباد لوگوں کا گزر بسر معمولی کھانے پینے کی چیزیں بیچ کر ہو جاتا ہے۔ لیکن آلودگی ختم ہونے تک سمندری سیر پر پابندی لگنے کے بعد سیکڑوں لوگ بے روزگار ہو گیے۔ بے حس سماج، عدلیہ، انتظامیہ اور کاروباری لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے پر ہی پابندی لگائی جائے۔
اسپائڈر مین
مختلف مناظر کو جمع کرکے افسانہ بنایا گیا ہے۔ شہر کی دوڑتی بھاگتی زندگی، چیختی چنگھاڑتی گاڑیاں، آبروریزی، قتل و غارت گری، بم دھماکے سب ایک اسپائڈر مین کے اشارے پر ہو رہے ہیں۔ اس نے پورے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ شہر والے اس کی حکومت سے خوش ہیں۔ خلق خدا نعرے لگا رہی ہے اسپائڈر مین، اسپائڈر مین، وی وانٹ یو۔ تجھے مکھیوں کے شہر کا سلام ہو، اے صاحب عنکبوت تو ہی ہمارا امام ہو!
ستارہ غیب
افسانہ لوڈو کے طرز کے ایک خود ساختہ کھیل پر مبنی ہے جس میں چار مہرے ہیں۔ گھڑ سوار، بادبانی کشتی، مینار اور نیم دراز ببر شیر۔ کھلاڑیوں کی تعداد بھی چار ہے، جو بڑے انہماک اور حکمت عملی سے چالیں چلتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر سکیں۔ علاقوں کے نام مقامی ہیں اس لئے کھلاڑیوں پر اس کا نفسیاتی اثر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ سوئے اتفاق کہ واحد متکلم ان علاقوں پر قبضہ کرنے میں ناکام رہتا ہے جو اس کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ سب مل کر اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں، اپنی محرومی اور بدقسمتی سے وہ بد دل ہو جاتا ہے اور کھیل چھوڑ دیتا ہے۔
اوپر والیاں
افسانہ ایک بیمار شخص کی روداد ہے جس کا جسم بخار کی وجہ سے جل رہا ہے۔ گھر والے اس کے آرام کے خیال سے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں لیکن ان سرگوشیوں میں کچھ آوازیں ایسی ہیں جنہیں سن کر وہ اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں بیمار کی فکر سے زیادہ ان کی اپنی پریشانیاں اور جھنجھلاہٹیں ہیں۔ دوا سے افاقہ نہ ہونے پر جھاڑ پھونک شروع ہوتی ہے، آگ میں مرچیں ڈالی جاتی ہیں، گوشت کے ٹکڑے سے نظر اتار کر اور سر پر روٹیوں کا تھال باندھ کر چیلوں کو کھلایا جاتا ہے۔ یہ تمام تر عوامل بیمار شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر یہ چیلیں کب تک جھپٹا مارتی رہیں گی، منڈلانا کب شروع کریں گی۔
آج کا مرنا
اس کہانی میں سماجی بے حسی کا ماتم کیا گیا ہے۔ بلیوں کو کھانا کھلانے والی ایک بوڑھی فقیرنی سالہا سال سے ایک مخصوص مقام پر بیٹھتی تھی اور اسی وجہ سے وہ منظر کا ایک محسوس حصہ بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کہانی کا راوی امریکہ جیسے مشینی شہر کو صرف اس لئے چھوڑ کر آتا ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد ایک مخصوص شناخت کے ساتھ وہاں زندگی بسر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ مزید اسے اپنے شہر کی اقدار و روایات عزیز تھیں۔ لیکن جب وہ اپنے شہر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ کسی کی موت بھی اس کے معمولات میں کوئی فرق نہیں لا پاتی۔
کہر
اس افسانے میں کہر کو مجسم کرنے کوشش کی گئی ہے۔ انسانی مفاد پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی اور کثافت نے پورے شہر کو دھندلا کر دیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ دھند قدرتی اور وقتی ہے، چھٹ ہی جائے گی۔ لیکن ختم ہونے کے بجائے بڑھنے کے ہی آثار نظر آتے ہیں۔ کہر اس افسانے میں جبر کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔
بحیرۂ مردار
کہانی اولاد سے محروم ایک جوڑے کی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں اور بیوی دونوں میں کوئی نقص نہیں اس کے باوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہر بار حمل ٹھہرنے کے کچھ ہی دن بعد بچہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اخبار میں ملازم راوی اپنی زندگی کی محرومیوں کا ذکر بھی اسی ضمن میں کرتا ہے۔ اس کو سنڈے میگزین کے لئے ایک کالم مانیں یا مانیں لکھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ ایک دن وہ کالم لکھنے کے لئے بہت دیر تک پریشان رہتا ہے اور پھر لکھتا ہے۔۔۔ اسرائیل کے قریب ایک جھیل ہے جس کا نام بحیرہ مردار ہے۔ اس کے کھارے پانی میں یہ خاصیت ہے کہ وہاں کوئی زندہ چیز پنپ نہیں سکتی۔ نہ آبی پودے نہ مرغابیاں، نہ مچھلیاں۔ اسی لئے اسے بحیرہ مردار کہتے ہیں۔
شہر جو کھوئے گئے
زمین کے نیچے سے دریافت شدہ ایک شہر کی اشیا، مکانات، تہذیبی و ثقافتی آثار کی مدد سے تحقیق کی گئی ہے کہ یہ شہر کس زمانہ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ مینار پر لکھی عبارت کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ ایک مظلوم قوم تھی جسے تاراج کر دیا گیا تھا۔ جن کی عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا گیا تھا یعنی یہ کہ ظلم و تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
زمین کی نشانیاں
اس کہانی میں تہذیب کے زوال کا نوحہ ہے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اخلاق و اقدار کی نشانیاں باقی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کی ترجیحات اور مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ کہانی میں مذکور خاندان کے ایک مردہ شخص کی پسند و ناپسند کا خیال اہل خانہ اس طرح رکھتے ہیں جیسے وہ کہیں آس پاس ہے اور جلد ہی لوٹ آئے گا۔ کہانی میں بلی، سینبھل، درخت، مکانات اور اسی طرح کی کئی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
گائے کھائے گڑ
یہ افسانہ حکومتی جبر پر مبنی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی کہانی ہے جسے افسانہ نگار نے بچپن کے ایک واقعہ سے جوڑ کر مبہم پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ جس طرح بچپن میں گائے کھائے گڑ کہلواتے ہوئے مضبوط ہاتھ ہونٹ دبا دیتے تھے، اوہ وہ جملہ گائے کھائے گپ ہو جاتا تھا، اسے کبھی اصل جملہ کہنے کی آزادی نہیں دی گئی۔ اسی طرح عملی زندگی میں بھی وہ جب صحیح یا حق بات کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اوپر مسلط مضبوط طاقتیں اس کی زبان بند کر دیتی ہیں۔
ناقۃ اللہ
یہ افسانہ انسان کے ظلم و تشدد اور اس کے تخریبی رجحان کی روداد ہے جو عہد نامہ عتیق کے اونٹنی والے واقعہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اونٹنی کو معجزہ کے طور پر بھیجا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارے لئے برکت کا سبب ہے۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے باری باری اپنی اونٹنیوں کو پانی پلائیں اور اس معجزاتی اونٹنی کے لئے ایک دن چھوڑ دیں۔ لیکن لوگوں نے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا اور اونٹنی کے کونچیں کاٹ دیں اور پھر اس کا گوشت بھون کر جشن کا ماحول برپا کیا گیا۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-