- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
بلراج مینرا کے افسانے
وہ
سکون و اطمینان کے لیے مضطرب انسان کی کہانی ہے۔ ماچس کی تلاش کو سکون کی تلاش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کو رات میں سگریٹ پینے کی خواہش ہوتی ہے۔ سارے گھر میں ماچس تلاش کرنے کے بعد وہ باہر نکل پڑتا ہے۔ حلوائی کی بھٹی اور چیک پوسٹ پر آگ نہ ملنے کے بعد وہ سنسان لمبی سڑک پر چلتا چلا جاتا ہے۔ مرمت شدہ پل کے پاس جلتی لالٹین سے سگریٹ جلانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے اور پولیس اسے تھانے لے جاتی ہے۔ رات بھر وہاں رہنے کے بعد جب وہ گھر کی طرف لوٹتا ہے تو ایک شخص سے ماچس مانگتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو خود ماچس کی تلاش ہے۔
جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے
حضور! مجھے اس فضول و بے معنی سلسلے میں واقعی کچھ کہنا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ مرجاؤں گا اور یوں دنیا سے رشتہ ٹوٹ جائےگا۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوا اور اتفاقاً مجھے اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا۔ جی ہاں، میں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں اس الزام کو
ہوس کی اولاد
اس افسانہ میں افزائش نسل پر سوال قائم کیا گیا ہے۔ راہی اپنے دوست کرشن کو خط لکھ کر کہتا ہے کہ تم باپ بن گئے ہو جو کہ دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ لیکن میں اسے اولاد نہیں ہوس کی اولاد کہتا ہوں ۔ مجھے ایسے بچے سے نفرت ہوتی ہے جو شادی کے بعد یکجائی کے نتیجے میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ کرشن کی اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے کوئی مطلب نہیں ، وہ ان سب چیزوں سے بالا تر ہو کر اسے دوست رکھتا ہے۔ راہی کی زندگی یوں ہی دھوپ چھاؤں کی طرح گزرتی رہتی ہے پھر بنگلور میں اسے ایک لڑکی ملتی ہے جس سے اسے محبت ہو جاتی ہے اور وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ بچہ پیدا کرنا چاہتا لیکن اس کی بیوی کہتی ہے کہ مجھے بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
کمپوزیشن تین
زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے ایک ایسے فنکار کی روداد ہے، جو تعلیم یافتہ، صحت مند اور اپنے پیشے میں ماہر ہے لیکن اسے کہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ کہیں سے کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایک دن اس کے کمرے میں دو چڑیاں پھنس جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ خوش ہوتا ہے کہ انھیں بھون کر کھائے گا۔
شہر کی رات
طبیعت کی کجی کے باعث ایک ایسے پریشان شخص کی کہانی ہے جو سماجی اصول و قوانین کی پابندی کرنے سے گریزاں ہے۔ بس میں اس سے سگریٹ پینے کے لیے منع کیا جاتاہے تو اگلے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے۔ رات بھر ادھر ادھر شہر کی سڑکوں پر سرگرداں رہتا ہے پھر جب وہ دوسری بس میں بیٹھتا ہے اور اسے سگریٹ پینے سے منع کیا جاتا ہے تو وہ پھر اتر جاتا ہے۔
بس اسٹاپ
اس افسانے کا جائے وقوع بس اسٹاپ ہے، ایک شخص بس کے انتظار میں کھڑا گزرتی بسوں، کاروں اور رکشوں پر بیٹھے لوگوں کے چہرے اور ہر چہرے کےتاثرات دیکھ رہا ہے۔ رفتہ رفتہ آمد و رفت کم ہو جاتی ہے سڑک خالی ہو جاتی ہے وہ تھک کر اپنا بوجھ اپنے صرف ایک پیر ڈال دیتا ہے۔ پھر بھی بس نہیں آتی اور وہ انتظار کا پیکر بنا کھڑا رہتا ہے۔
دیوندر ستیارتھی کے ساتھ ایک دن
کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ آپ گھر سے نکلتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو گلی کے نکڑ پر نظر آتا ہے۔ آپ شام کو کافی ہاؤس پہنچتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو کاؤنٹر کے قریب نظر آتا ہے۔ آپ بہت رات گئے گھر کا راستہ پکڑتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو کسی اسٹال کے باہر
انا کا زخم
یہ افسانہ ایک شخص کی احساس کمتری کا زائیدہ ہے جو اپنے دوست راہی کی طبعی کجی اور ذہنی نخوت کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کے من مانے طریقوں سے کڑھتا ہے اور انتقام لینے کی ٹھان لیتا ہے۔ سوچتا ہے کہ اسے انا کی خول سے باہر نکالے گا جبکہ اس کے تمام عوامل یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ خود انا کی سخت قید میں ہے اسی لیے راہی سے حسد بھی کرتا ہے۔
ساحل کی ذلت
یہ معاشی اور جسمانی طور پر ناآسودہ شخص کی کہانی ہے جسے نہ تو ماں کی مامتا ملی اور نہ ہی کنبہ کی محبت۔ اسے صرف یہ معلوم ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے۔ پیسہ اور صرف پیسہ۔ جب پیسے آجاتے ہیں تو جسمانی آسودگی کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں، جسمانی لذتیں وقتی طور پر آسودہ تو کرتی ہیں مگر تنہائی اور بے یقینی کو ختم نہیں کر پاتی ہیں۔
بھاگوتی
بھاگوتی غربت سے پیدا ہونے والے مسا ئل پر مبنی افسانہ ہے۔ بیوہ بھاگوتی کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں ،اپنی بیٹی کی پرورش اور زندگی گزرانے کے لیے اسقاط حمل کروانے کا پیشہ اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح لوگوں کے گناہوں کی بھی وہ رازدار ہے۔ اس لیے لوگ اس سے بڑی خوش دلی سے پیش آتے ہیں۔ اپنے پیشے کےسارے گر وہ اپنی بیٹی کو سکھا دیتی ہے۔ اس کے اس پیشے میں بنواری نام کا لڑکا اس کی مدد کرتا ہے۔ بھاگوتی اسے اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتی ہے۔ ایک دن اس کی بیٹی کونین کی گولیاں بڑی بےصبری سے تلاش کرتی ہے۔ بھاگوتی کے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے تلاش کر رہی ہے بنواری کا نطفہ اس کی کوکھ میں پل رہا ہے۔
کمپوزیشن ایک
ایک شخص اس کشمکش میں ہے کہ سورج سے اس کا ایسا کیا سمبندھ ہے جو سورج اس کی آنکھ کھلنے کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، سارا دن سایہ کی طرح ساتھ رہتا ہے، مختلف طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں لیکن کوئی اطمینان بخش جواب اسے نہیں مل پاتا، آخر میں ایک اجنبی اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ تم سورج اور سایہ کا مرکز ہو۔ سورج اور سایہ تمہارے گرد گھومتا ہے۔
کمپوزیشن دو
اس افسانہ کا کردار موت کے فرشتے کے لیے مشکل بنا ہوا ہے، جبکہ دوسرے لوگ باآسانی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اس شخص نے خود کو تنگ و تاریک گوشے میں محدود کر لیا ہے جہاں کی ہر چیز سیاہ ہے۔ سیاہ قلم سے سیاہ کاغذ پر وہ افسانے لکھتا رہتا ہے، ایک دن وہ افسانہ سنانے کی غرض سے باہر نکلتا ہے تو ہجوم اسے جوتے گھونسے سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
مقتل
افسانے میں ایک شخص خود کو سنگین دیواروں کے ایک بند تاریک کمرے کے باہر پاتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اسے کون وہاں پٹخ گیا ہے، وہ گزشتہ زندگی کی تمام باتیں بھول چکا ہے اور اسکی زندگی تمام فطری احساسات سے بھی عاری ہے لیکن اسے ایک نامعلوم لذت کا احساس ہوتا ہے شاید وہ زخم کی لذت ہے جو اسے ہنسا بھی سکتی ہے اور رلا بھی سکتی پے۔ اسے بے رحم اور سفاک دنیا کے خلاف جد و جہد کی ایک کہانی کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔
آتما رام
افسانہ زندگی کی بے معنویت پر مبنی ہے۔ ایک بیٹا اپنے پاب کی لاش کے آخری رسومات ادا کرنے شمشان گھاٹ جاتا ہے، باپ کی ناگہانی موت نے اسے ششدر کر دیا ہے۔ اس کا باپ ایک اصول پسند منظم زندگی گزارنے والا، اپنا بوجھ خود اٹھانے والا شخص تھا جس نے مرتے وقت بھی کسی کو زحمت نہیں دی۔ ایسی جگہ پر اس کی موت واقع ہوئی جہاں اس کا کوئی شناسا نہیں تھا ، اس کی لاش کو لاوارث سمجھ کر شمشان گھاٹ پہنچا دیا جاتا ہے آخری رسومات کرتے ہوئے بیٹا سوچتا ہے جس شخص نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے وہ آج اتنی معمولی سطح پر ہے۔ ماضی کی باتیں یاد کر کے اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور اس کی سانسیں تھم جاتی ہیں۔
جسم کی دیوار
یہ افسانہ انسان کی بے چین، منتشر اور غیر منظم زندگی کا عکاس ہے۔ نگم تھکا ماندہ سرد کمرے، سرد بستر، اور تاریکی میں اپنے دہکتے ہوئے جسم کو آسودہ کرنے کی غرض سے لیٹتا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اسے اپنا بستر بھی جلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے کانوں میں سرگوشی ہوتی ہے کہ تم شراب اور سگریٹ چھوڑ دو۔ اس کا دوست ڈاکٹر ماتھر بھی یہی چاہتا ہے لیکن وہ یہ چیزیں نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہی چیزیں تو ہیں جو اس کے غم کو ہلکا کرتی ہیں جن میں اس کے باپ دادا کا غم بھی شامل ہے جنھوں نے جوانی میں ہی داغ مفارقت دے دیا تھا۔
آخری کمپوزیشن
اس افسانے میں وحشت ناک ماحول اور مناظر علامتی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی پر خوف و دہشت کے پہرے نے فن کاروں سے الفاظ چھین لیے ہیں۔ ترقی کی طرف گامزن زندگی میں پیش آنے والے مسائل، خوف، دہشت، قتل و غارت گری اور ظلم و جبر کے ماحول کی عکاسی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-