- کتاب فہرست 188275
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1971
طب919 تحریکات300 ناول4697 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1454
- دوہا65
- رزمیہ109
- شرح200
- گیت81
- غزل1184
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1593
- کہہ مکرنی6
- کلیات689
- ماہیہ19
- مجموعہ5082
- مرثیہ382
- مثنوی833
- مسدس58
- نعت559
- نظم1255
- دیگر71
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی19
- قطعہ62
- رباعی297
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
بانو قدسیہ کے افسانے
یہ رشتہ و پیوند
محبت کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں سجاد کو سرتاج سے محبت ہو جاتی ہے لیکن کم ہمتی اور خوف کے باعث وہ برا ہ راست اظہار محبت نہیں کر پاتا اور سرتاج کو بہن بنا لیتا ہے۔ اسی بہن بھائی کے رشتے نے وہ پیچیدگی پیدا کی کہ سرتاج کی شادی سجاد کے کزن فواد سے ہو گئی، لیکن دونوں کی زبان پر ایک حرف نہ آ سکا۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی فواد کا انتقال ہو جاتا ہے، پھر بھی سجاد بہن بھائی کے رشتہ کو نہیں توڑتا۔ ایک طویل عرصہ یونہی گزر جاتا ہے اور پھر ایک دن سجاد سرتاج کے گھر مستقل طور پر رہنے کے لئے آجاتا ہے۔ سرتاج کہتی بھی ہے کہ بھائی جان لوگ کیا کہیں گے تو سجاد جواب دیتا ہے کہ میں نے تمہیں پہلے دن کہہ دیا تھا کہ ہم بات نبھانے والے ہیں، جب ایک بار بہن کہہ دیا تو ساری عمر تمہیں بہن ہی سمجھیں گے۔
توبہ شکن
یہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کی کہانی ہے۔ لڑکی کی زندگی میں ایک ساتھ دو مرد آتے ہیں، ایک یونیورسٹی کا پروفیسر اور دوسرا ہوٹل کا منیجر۔ وہ ہوٹل کے منیجر کا رشتہ ٹھکرا کر پروفیسر سے شادی کر لیتی ہے اور یہی اس کی زندگی کا غلط فیصلہ ثابت ہوتا ہے۔
انتر ہوت اداسی
انتر ہوت اداسی ایک ایسی غریب لڑکی کی کہانی ہے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی شک کے دائرہ میں آ جاتی ہے، کبھی اس کے والدین شک کرتے ہیں، کبھی شوہر اور ساس اور کبھی سماج۔ وہ زندگی بھر صفائیاں دیتے دیتے نڈھال ہو جاتی ہے۔ اس لڑکی پر پہلے اس کی ماں بد چلنی کا الزام لگاتی ہے، پھر جب اس کی شادی ذہنی طور پر معذور ایک امیر شخص سے کر دی جاتی ہے اور وارث کی چاہت میں اس کا سسر اس سے رشتہ قائم کرتا ہے تو ساس اسے گھر سے باہر نکال دیتی ہے۔ اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی ماں کو شک کی سولی پر لٹکاتا ہے تو ماں نڈھال ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میرا کبھی کسی سے ناطہ نہیں رہا بیٹا۔ میں اس قابل نہیں تھی کہ کوئی مجھ سے رشتہ جوڑتا۔
ذات کا محاسبہ
عہد حاضر کی بھاگ دوڑ والی زندگی نے انسان کو اس قدر کثیر المقاصد اور مصروف بنا دیا ہے کہ اسے کبھی خود کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ ذات کا محاسبہ ایک ایسے ہی کردار ذیشان کی کہانی ہے جس کی زندگی اس قدر مشینی ہو گئی ہے کہ وہ آرا کی محبت کے جذبوں کی تپش بھی محسوس نہیں کر سکتا اور اپنے روشن مستقبل کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ اخیر میں جب ایک دن ائرپورٹ پر ذیشان اور آراء کی ملاقات ہوتی ہے تو آراء کو مطمئن اور پرسکون دیکھ کر ذیشان کو جھٹکا لگتا ہے، وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے تو سوائے خسارہ کے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
توجہ کی طالب
جس انسان کو اپنا دل نہ چاہے اس کا تو پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ لاکھ جی کو منائو وہ محبت کا جواب محبت سے دے ہی نہیں سکتا۔ نصرت بھی اپنے چاہنے والوں کے سینے کا بوجھ، گلے کا پھندا اور ضمیر کی کڑکی رہی۔ اس کے چاہنے والے سیاحوں کی طرح
نیو ورلڈ آرڈر
یہ ایک تعلیم یافتہ دوشیزہ کی کہانی ہے۔ دوشیزہ تیس سال کی ہو چکی ہے لیکن کنواری ہے۔ شادی کے لیے اس نے بہت سے لڑکے دیکھے لیکن کوئی اس کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتا تھا۔
چھمو
امیر گھرانوں میں ملازماؤں کے جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ چھمو ایک معصوم سی لڑکی ہے جو خود بھی استحصال کا نتیجہ ہے۔ چھمو پر نواب زادے نظر التفات کرتے ہیں اور اس کا استحصال کرتے ہیں۔ چھمو ان سے امیدیں وابستہ کر لیتی ہے اور جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو وہ بستر سے لگ جاتی ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
ہزار پایہ
میاں بیوی کے رشتہ میں لاپروائی اور بے توجہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ تہمینہ کے دولہا بھائی انتہائی خوبرو اور ائر فورس میں ملازم ہیں، شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی باجی، یوسف بھائی کے سلسلہ میں بے نیاز اور لا تعلق سا رہتی ہیں۔ حتی کہ نہاتے وقت ان کو تولیہ اٹھا کر دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتیں۔ یوسف کو اندر ہی اندر ہی یہ غم کھائے جاتا ہے اور ایک آدھ بار وہ اشارہ کنایہ میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ یوسف بھائی کے سر میں شدید درد ہوتا ہے اور تہمینہ ان کا سر دباتے دباتے سو جاتی ہے۔ باجی یہ دیکھتی ہے تو اگلے ہی دن اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ اس وقت تہمینہ کو بہت غصہ آتا ہے اور وہ بد دعا کرتی ہے کہ خدا کرے باجی مر جائے۔ اور کچھ دن بعد باجی واقعی انفلوئنزا سے مر جاتی ہے۔ تہمینہ کو ایسا لگتا ہے کہ باجی انفلوئنزا سے نہیں بلکہ اس کی بد دعا سے مری ہے۔
بہوا
عورت کی مظلومیت، مرد کے ظلم و جبر اور عورت کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے والے سماج کی المناک کہانی ہے۔ مہر دین اور بہوا نچلے طبقے سے ہیں۔ بہوا خوبصورت بھی ہے لیکن مہر دین اسے صرف اس لئے گھر سے نکال دیتا ہے کہ شادی کے تین سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ماں نہیں بن سکی تھی۔ اس کے بالمقابل بھیا ثروت مند اور تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہو جاتی ہے جو خوبصورت نہیں ہے، لیکن تھوڑے دنوں میں ہی وہ حاملہ ہو جاتی ہے، بھیا کو یہ سخت ناگوار گزرتا ہے اور اسے مایکے بھیج دیتے ہیں۔ مایکے بھیجنے کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ مہر دین جب بہوا جیسی خوبصورت عورت کو نکال سکتا ہے تو کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ اس کے ساتھ گزارہ کرتا رہتا۔ پہلے ایک کی چاکری ہی کیا کم تھی کہ اب اس کے بچوں کو بھی پالتا پھروں۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1971
-