Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

بے نظیر شاہ وارثی

1863 - 1932

بے نظیر شاہ وارثی کا تعارف

تخلص : 'بے نظیرؔ'

اصلی نام : سید محمد بے نظیر شاہ

پیدائش :الہٰ آباد, اتر پردیش

وفات : 02 Sep 1932 | حیدر آباد, تلنگانہ

سید  محمد بے نظیر شاہ وارثی  جن کاتخلص بے نظیرؔ تھا ، 1863میں کٹرا مانک پور ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان  کے والد ماجد احسان علی قادری ایک مبلغ دین اور منبع رشد وہدایت تھے جنہیں مولانا شاہ عبدالعزیز محدث جیسے بزرگ کے خلیفہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔  سید بے نظیر شاہ بھی باپ کی طرح ایک صوفی اور درویش منش انسان بنے اور مسلک پدری کو اپنا شعارِ زندگی بنایا۔یہ سلسلۂ قادری چشتی سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے سلسلہ عالیہ وارثیہ میں وارث علی شاہ سے بھی بیعت سے مشرف ہوکر روحانی فیض اکتساب کیا۔ ان کی تعلیم بالکل قدیم طرز پر ہوئی اور عربی و فارسی میں بڑی فضیلت حاصل کی۔ فقہ،حدیث اور قرآن پاک وغیرہ کے درس بھی گھر پر ہی لیے۔ تصوف تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا اور ان کی پوری زندگی پر اس کے بہت گہرے اثرات تھے۔

علم و ادب کی حسب حوصلہ تکمیل کے بعد انہوں نے ترویج دین اور ہدایت خلق اللہ کو اپنا شیوہ زندگی بنایا اور حیدر آباد دکن چلے گئے۔ جہاں بہت جلد ان کے معتقدین و مردین کا ایک خاص حلقہ بن گیا اور پھر اس میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ موصوف نے ایک پاک و بے یار زندگی گزار کر وصل جام نوش کیا۔

سید محمد نظیر شاہ وارثی کو شعر و شاعری سے فطری لگاؤ تھا ۔وہ اپنے جدید رنگ سے قطع نظر ایک مشاق غزل گو بھی تھے لیکن افسوس کہ ان کا بیشتر کلام کسی سفر کے دوران ضائع ہوگیا۔ غزل میں وہ وجہہ اللہ  الہ آبادی اور مثنوی میں امیر مینائی سے مشورہ لیتے تھے، لیکن سلسلۂ فقر و درویشی سے منسلک ہونے کی وجہ سے دور جدید کے ان قادر الکلام شعرا میں سے ہیں جن کا تعارف بھی شاذو نادرہی ہوا ہے، حالانکہ ان کا کلام ایسا جاندار صاف ستھرا ور تصوف میں ڈوبا ہوا ہے کہ انہیں اپنے عصر کے اچھے شعرا میں شمار کرنا چاہئے۔ پروفیسر عبدالقادر سروری اورپروفیسر الیاس برنی نے ان کے بہت سے انتخابات اپنی انتخابی جلدوں میں شائع کرکے ان کی شاعری کو اردو دان طبقہ سے روشناس کرایا اور اردو اب کے طالب علموں کے لیے اس مشاق سخنور کے کلام سے لطف اندوز ہونا تو در کنار نام جاننا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

بے نظیر شاہ کی شہرت کا باعث ان کی ایک شاہکار مثنوی ہے جو 1890میں مکمل ہوئی  اور ’کتاب مبین‘اور’ جواہر بے نظیر‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئی۔  یہ مثنوی خاصی طویل ہے ۔ اس کی تصنیف کا مقصد مریدین کی رہنمائی  اور  انسان کے عشق حقیقی تک پہنچنے کے مراحل  کا بیان استعارے کے پیرائے میں کیا گیا ہے  ۔

 بے نظیر شاہ کا اسلوب بڑاصاف و سادہ ہے ۔ ان کے بیانات میں تسلسل کے ساتھ ساتھ بڑی روانی پائی جاتی ہے اور وہ تفصیلات کو ایسے دلکش پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ بیانات طویل ہوتے ہوئے بھی اپنا جذب و تاثر کھونے نہیں پاتے ۔ بے نظیر شاہ کی زبان بھی شستہ و سلیس ہے۔

موضوعات

Recitation

بولیے