چندو لعل بہادر شادان کے اشعار
آتا نہیں جو سامنے مارے حجاب کے
ہم دل سے ہیں نثار اسی آفتاب کے
بھروسہ ہے ترا ہی اور ہے تیرے سوا کس کا
نہ دیوے آسرا جب تو مجھے ہو آسرا کس کا
نیکی کا کوئی کام ہی آیا نہیں مجھ سے
کیا ہووے گا انجام مرا کچھ نہیں معلوم
حیراں تھا کہ دل میرا کہاں جا کے چھپا ہے
جگنو کی طرح یار کی دستار میں چمکا
نور تھا یا شعلہ تھا یا برق یا خورشید تھا
کچھ تو اے موسیٰ کہو کیا تھا وہ جلوہ طور کا
جب غنچے نے سر اپنا گریباں سے نکالا
بلبل نے قدم پھر نہ گلستاں سے نکالا
جلوہ گر تھا ہر جگہ کعبہ تھا یا بت خانہ تھا
گھر ہزاروں تھے مگر وہ ایک صاحب خانہ تھا