Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ejaz Siddiqi's Photo'

اعجاز صدیقی

1913 - 1978 | ممبئی, انڈیا

ممتاز ادبی صحافی اور شاعر جنھوں نے "شاعر"جیسے ادبی مجلہ کی ادارت کی

ممتاز ادبی صحافی اور شاعر جنھوں نے "شاعر"جیسے ادبی مجلہ کی ادارت کی

اعجاز صدیقی کا تعارف

تخلص : 'اعجاز'

اصلی نام : اعجاز حسین

پیدائش :آگرہ, اتر پردیش

وفات : 09 Feb 1978 | ممبئی, مہاراشٹر

رشتہ داروں : حامد اقبال صدیقی (بیٹا), افتخار امام صدیقی (بیٹا)

اردو کے عظیم شاعر علّامہ سیماب اکبر آبادی کے فرزند اور جانشین اعجاز صدیقی (اصل نام اعجاز حسین صدیقی) 1913 ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ معقول تعلیم حاصل کی، انھیں اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس حاصل تھی۔ غزل، نظم، تحقیق، تنقید، اصلاحِ سخن، مذہب کی پابندی، پاسداری، غرض کہ ہر وہ خصوصیت جو سیماب میں تھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر اعجاز صدیقی کی شخصیت میں بھی تھا۔ سیماب نے آگرہ سے 1930ء میں رسالہ شاعر جاری کیا اور 1935ء میں اسے اعجاز صدیقی کو اس کا ایڈیٹر بنا دیا، انھوں نےتمام نامساعد حالات کے باوجود تاحیات اپنے والد کے اس چراغ کو روشن رکھا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ادارت میں ماہنامہ شاعر کے کئی ضخیم اور دستاویزی خاص نمبر شائع ہوئے جن میں خواتین افسانہ نگار نمبر، منٹو نمبر، آگرہ اسکول نمبر، غالب نمبر، افسانہ ڈرامہ نمبر، قومی یکجہتی نمبر، عصری ادب نمبر، گاندھی نمبر اور ناولٹ نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ تقسیمِ ہند کے وقت خاندانِ سیماب کراچی چلا گیا لیکن اعجاز صدیقی نے ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا، 1951ء میں علّامہ سیماب کی وفات کے بعد وہ آگرہ سے ہجرت کرکے بمبئی (ممبئی) آگئے۔ اعجاز صدیقی نے نظم اور نثر دونوں میں بہت کام کیا لیکن وہ سب شاعر اور دیگر رسائل کے صفحات میں بکھرا ہوا ہے، نظموں کے دو مجموعے ’’ خوابوں کا مسیحا‘‘ اور ’’کربِ خود کلامی‘‘ شائع ہوئے نیز غزلوں کا مجموعہ ’’ درونِ سخن‘‘ ان کی وفات کے 35 برس بعد چھپا۔ ان کی غزلوں کے تعلّق سے ان کے معاصر شاعر علی سردار جعفری نے لکھا کہ ’’ غزلوں میں ان (اعجاز صدیقی) کا انداز کلاسیکی رہا ہے لیکن اس کلاسیکیت میں انھوں نے جدید عہد کے تقاضوں کی اس طرح آمیزش کی ہے کہ زبان جدّت اور روایت کا ایک خوبصورت امتزاج بن گئی ہے ۔۔۔۔۔ ان کی غزلیں جدید غزل میں ایک بلند مقام رکھتی ہیں لیکن جس طرح اقبال اور یگانہ کی غزل گوئی کو نظر انداز کیا گیا ہے اسی طرح اعجاز صدیقی کی غزل کے ساتھ بھی بد سلوکی کی گئی ہے۔ اس عہد کے غزل کے معماروں میں ان کا نام مستند، معتبر اور قابلِ فخر ہے۔‘‘ اعجاز صدیقی نے اردو کے لیے تاعمر مجاہدہ کیا، مہاراشٹر میں اردو اکادمی کا قیام ان کا ایک اور اہم کارنامہ ہے۔ انھوں نے 9 فروری 1978 ء کو ممبئی میں وفات پائی، ان کے بعد ان کے فرزندان افتخار امام صدیقی، ناظر نعمان صدیقی اور حامد اقبال صدیقی اردو ادب کے اس شجر کی آبیاری کر رہے ہیں جسے علّامہ سیماب نے لگایا تھا۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے