آنکھوں کا تو کام ہی ہے رونا
یہ گریۂ بے سبب ہے پیارے
شاعر اور ناول نگار فضل احمد کریم فضلی 4 نومبر 1906 کو بہرائچ (اترپردیش) میں پیدا ہوئے ۔ الہ آباد اور آکسفرڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ بنگال میں کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور حکومت مشرقی پاکستان میں سکریٹری محکمۂ تعلیمات کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصے تک وزارت امور کشمیر کے سکریٹری بھی رہے۔ 1951 میں امریکی حکومت کی دعوت پر امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں مہمان لکچرر کے طورپر لکچر دئے۔ فضلی نے نظم اور نثر دونوں صورتوں میں اہم کارنے انجام دئے ۔ ان کے شعری مجموعے ’ نغمۂ زندگی ‘ ’ چشم غزال ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ فضلی کی شاعری کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ نئے سماجی شعور سے بھی ہم آہنگ نظر آتی ہے ۔ انہوں نے بڑی مقدار میں قومی اور ملی موضوعات پر نظمیں بھی کہیں۔ ’ خون جگر ہونے تک ‘ اور ’ سحر ہونے تک ‘ ان کے ناول ہیں ۔ یہ ناول بھی فضلی کے ایک بیدار تخلیقی ذہن کا پتہ دیتے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد فضلی نے کراچی میں رہ کر کئی فلمیں بھی بنائیں۔ 17 دسمبر 1981 کو کراچی میں انتقال ہوا۔