- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
فرانز کافکا کے افسانے
پل
میں سردی سے اکڑ گیا تھا۔ میں ایک پل تھا۔ میں ایک درے پر پڑا ہوا تھا۔ میرے پیر درے کے ایک طرف تھے، ہاتھوں کی انگلیاں دوسری طرف جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے آپ کو بھربھری مٹی میں مضبوطی کے ساتھ بھینچ رکھا تھا۔ میرے دونوں پہلوؤں پر میرے کوٹ کے دامن پھڑپھڑا
ایک چھوٹی سی کہانی
’’افسوس!‘‘ چوہے نے کہا، ’’دنیا روزبروز چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ شروع شروع میں تو یہ اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف آتا تھا۔ میں بھاگتا رہا، بھاگتا رہا، اور جب آخر کار مجھ کو دور پرداہنے بائیں دیواریں دکھائی دینے لگیں تو میں بہت خوش ہوا تھا۔ لیکن یہ لمبی دیواریں
حویلی کے پھاٹک پر دستک
گرمی کا موسم تھا، تپتا ہوا دن۔ اپنی بہن کے ساتھ گھر لوٹتے ہوئے میں ایک بہت بڑے مکان کے پھاٹک کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اب میں یہ نہیں بتاسکتا کہ میری بہن نے پھاٹک پر شرارتاً دستک دے دی تھی یا بے خیالی میں اس کی طرف اپنا ہاتھ صرف بڑھایا تھا اور دستک سرے
ایک قدیم مخطوطہ
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے دفاعی نظام میں بہت سی کوتاہیاں رہنے دی گئی ہیں۔ اب تک ہم نے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں رکھا تھا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگے رہتے تھے لیکن حال میں جو باتیں ہونے لگی ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ شاہی
فیصلہ: ف کے لیے ایک کہانی
بھری بہار میں اتوار کی ایک صبح تھی۔ دریا کے کنارے ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بودے مکان جن میں رنگ اور بلندی کے سوا کوئی اور فرق مشکل ہی سے نظر آتا تھا، ان میں سے ایک کی پہلی منزل پر اپنے نجی کمرے میں ایک نوجوان تاجر جارج بنڈمان بیٹھا ہوا تھا۔
درخت
ایسا ہے کہ ہم برف میں درختوں کے تنوں کی طرح ہیں۔ دیکھنے میں وہ ڈھیلے ڈھالے پڑے ہوتے ہیں اور ایک ہلکا سا دھکا انہیں لڑھکانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ نہیں، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ زمین میں پینٹھے ہوئے ہیں۔ مگر دیکھیے نا، خود یہ بھی دکھاوا ہی
پاس سے گزرنے والے
جب آپ رات کو کسی سڑک پر ٹہلنے کے لیے نکلتے ہیں اور خاصے فاصلے پر سے دکھائی دیتا ہوا۔۔۔ اس لیے کہ سڑک پہاڑی کو جاتی ہے اور پورا چاند نکلا ہوا ہے۔۔۔ ایک آدمی دوڑتا ہوا آپ کی سمت آتا ہے تو آپ اسے پکڑ نہیں لیتے۔ اگر وہ کوئی ناتواں شکستہ حال انسان ہے تب بھی
ایک عام خلفشار
ایک عام تجربہ، اس کے نتیجے میں ایک عام خلفشار۔ الف کو ب کے ساتھ مقام ج پر کچھ اہم تجارتی معاملت کرنا ہے۔ ابتدائی بات چیت کے لیے وہ مقام ج جاتا ہے۔ وہ دس منٹ میں راستہ طے کرلیتاہے اور واپسی میں بھی اسے اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ واپس آکر گھروالوں کو وہ اپنی
بالٹی سوار
سارا کوئلہ ختم، بالٹی خالی، بیلچہ بے مصرف، آتش دان ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہوا، کمرہ منجمد ہوتا ہوا، کھڑکی کے باہر بتیاں ٹھٹھری ہوئیں، پالے میں لپٹی ہوئیں، آسمان ہر اس شخص کے مقابلے پر روپہلی سپر بناہوا جو اس سے مدد کا طلب گار ہو۔ مجھے کوئلہ مہیا
خانہ دار کی پریشانیاں
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اودرادِک‘‘ اصلاً سلانی زبان کا لفظ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس کی اصل جرمن ہے اور سلانی زبان کا اس پر صرف اثر پڑا ہے۔ ان دونوں تاویلوں کے تذبذب کی وجہ سے یہ
شکاری گریکس
بندرگاہ کی دیوار پر دو لڑکے بیٹھے ہوئے پانسے کھیل رہے تھے۔ تاریخی یادگار کی سیڑھیوں پر بیٹھا ایک شخص اخبار پڑھ رہا تھا اور اس سورما کے سایے میں سستا رہا تھا جو تلوار علم کیے ہوئے تھا۔ ایک لڑکی چشمے سے بالٹی بھر رہی تھی۔ ایک پھل والا اپنی ترازو کے پاس
ریڈ انڈین ہونے کی خواہش
کاش کوئی ریڈ انڈین ہی ہوتا، ہر دم چوکنا اور ایک دوڑتے ہوئے گھوڑے پر سوار، ہوا کے سامنے جھکا ہوا۔ مرتعش زمین کے اوپر جھٹکے کھاتا تھرتھراتا ہوا، یہاں تک کہ وہ اپنے مہمیز پھینک دیتا، اس لیے کہ مہمیزوں کی حاجت ہی نہ ہوتی، لگا میں گرادیتا، اس لیے کہ
گیلری میں
اگر سرکس میں کسی مریل مدقوق سی کرتب دکھانے والی کو کوئی کوڑا گھماتا ہوا بے درد رِنگ ماسٹر کسی بدلگام گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھاکر مجبور کرتا کہ وہ کبھی سیر نہ ہونے والے تماشائیوں کے سامنے مہینوں تک رکے بغیر چکر پر چکر لگائے جائے، گھوڑے پر زناٹے کے ساتھ گھومتی
بے خیالی میں کھڑکی سے دیکھنا
آخر یہ بہار کے دن جو سرپر چلے آرہے ہیں ہم ان کا کیا کریں؟ آج سویرے سویرے آسمان کا رنگ مٹیالا تھا لیکن اب اگر آپ کھڑکی پر جاتے ہیں تو آپ کو تعجب ہوتا ہے اور آپ دریچے کے کھٹکے پر اپنا رخسار رکھ دیتے ہیں۔ سورج ڈوب چلا ہے۔ لیکن نیچے وہ آپ کو ایک ننھی بچی
لباس
اکثر جب میں ایسے لباس دیکھتا ہوں جن میں طرح طرح کی چنٹیں دی ہوئی، گوٹیں ٹکی ہوئی اور جھالریں لگی ہوئی ہوتی ہیں، جو حسین جسموں پر نہایت چست بیٹھتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ وہ اپنی ہمواری زیادہ عرصے تک برقرار نہ رکھ پائیں گے، ان میں ایسی شکنیں پڑجائیں
نیا وکیل
ہمارے یہاں ایک نیا وکیل آیا ہے، ڈاکٹر بُسفیلس۔ اس کے حلیے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے آپ کو یہ خیال آسکے کہ وہ کسی زمانے میں سکندر مقدونی کا گھوڑا تھا۔ ہاں، اگر آپ اس کی کہانی سے واقف ہوں تو البتہ آپ کو کچھ کچھ ایسا محسوس ہوسکتا ہے۔ لیکن ابھی ایک
اگلا گاؤں
میرے دادا کہا کرتے تھے! ’’زندگی حیرت خیز حدتک مختصر ہے۔ میں تو جب اپنی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو یہ اتنی قلیل معلوم ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی نوجوان اس اندیشے کے بغیر اگلے گاؤں کو روانہ ہونے کا ارادہ کس طرح کرسکتا ہے
قصبے کا ڈاکٹر
میں بڑی الجھن میں تھا۔ دس میل دور کے ایک گاؤں میں ایک بہت بیمار مریض میری راہ دیکھ رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان کے تمام وسیع خلاؤں کو تیز برفانی طوفان نے پر کر رکھا تھا۔ میرے پاس ایک گھوڑا گاڑی تھی، یہ بڑے پہیوں والی ہلکی گاڑی تھی جو ہماری دیہاتی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-