غنی اعجاز ودربھ میں اردو شعر و ادب کے نقیب تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں نظمیں بھی کہیں ہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف غزل ہی تھی۔ ان کی شاعری روایتی انداز کی حامل تھی چونکہ اس دور میں جدیدیت کی لہر چل پڑی تھی ہر ذی شعور اس سے متاثر ہو رہا تھا اس لیے غنی اعجاز بھی اس سے بچ نہ سکے اور انہوں نے شعوری طور پر جدید لہجے میں شعر کہے۔ جس میں بہت جلد انہوں نے اپنی پہچان بنا لی۔
غنی اعجاز کا پہلا شعری مجموعہ ’’دشت آرزو‘‘ (1983ء) میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’’گرد سفر‘‘ (1995ء) میں منظر عام پر آیا۔ اور ’’کانٹوں کی چبھن‘‘ ان کے انتقال کے بعد (2011 ء) میں ’’ناشنیدہ‘‘ کے عنوان سے کلیات میں شامل ہے جسے فصیح اللہ نقیب نے مرتب کیا ہے۔