- کتاب فہرست 182396
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1899
طب839 تحریکات286 ناول4204 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1431
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح182
- گیت81
- غزل1003
- ہائیکو12
- حمد37
- مزاحیہ36
- انتخاب1525
- کہہ مکرنی6
- کلیات657
- ماہیہ19
- مجموعہ4683
- مرثیہ368
- مثنوی802
- مسدس54
- نعت513
- نظم1151
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ176
- قوالی19
- قطعہ56
- رباعی281
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
غضنفر کے افسانے
آبیاژہ
تگ و دو کے بعد بھی کنواں جب پیاسوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو کسی گہرائی سے زور دار قہقہے بلند ہوئے۔ جیسے کوئی اپنی طاقت اور دوسرے کی ہزیمت کا احساس دلا رہا ہو۔ پیاس، یاس اور شکست کے احساس نے پیاسوں کو ایسا مضطرب اور مشتعل کیا کہ ان کے چہرے کی زردیوں
حیرت فروش
کتابوں سے نکلتے ہی نگاہیں اشتہارں پرپڑنے لگیں۔ اشتہار اور انٹرویو کے چکرمیں وہ دربدرپھرنے لگا۔ اس چکر میں اسے چکر آنے لگے۔ آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔ پاؤں لڑکھڑانے لگے۔مگر ایک دن ایک اشتہار سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’ضرورت ہے حیرتوں کی۔ ایک
خالد کا ختنہ
جو تقریب ٹلتی آر ہی تھی، طے پا گئی تھی۔ تاریخ بھی سب کو سوٹ کر گئی تھی۔ پاکستان والے خالو اور خالہ بھی آ گئے تھے اورعرب والے ماموں ممانی بھی۔ مہمانوں سے گھر بھر گیا تھا۔ بھرا ہوا گھر جگمگا رہا تھا۔ درودیوار پر نئے رنگ وروغن روشن تھے۔ چھتیں چمکیلے
سائیبر اسپیس
شتابدی اکسپریس، سوپرفاسٹ میل، پسنجرٹرین، بس،بدئبیت، بےہنگم، بدبودار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈور، ہچکولے کھاتی رکشا اور تنگ وپرخارپیدل کا سفر طے کرکے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔ دھند اور دھول سے اٹی بے جان اور سنسان بستی کو دیکھتے ہی جیتی جاگتی
سرسوتی اسنان
بھائی صا حب! الہ آباد تک آیا ہوں تو سو چتا ہوں کہ سنگم بھی ہو آؤں۔ ’’سنگم جاؤگے؟‘‘ رگھو رائے سنگھ اے۔جے۔آر کو گھور نے لگے۔ ’’میں کسی آستھا یا پونیہ کی وجہ سے نہیں جانا چا ہتا ہوں۔‘‘ ’’تو پھر؟‘‘ بھائی صاحب! سنگم ایک تیرتھ استھان ہی نہیں،
محبت کے رنگ
میرے سینے کے درد کی دھمک ثمینہ کی سماعت تک پہنچ گئی۔ دہکتے ہوئے انگاروں سے بھری انگیٹھی اور درد مٹانے والے تیل کی شیشی لیے شمینہ آناً فاناً میرے پاس آ دھمکی۔ ’’ماسٹر صاحب! بٹن کھولیے، تیل مالش کردوں۔‘‘ میں جھجھکا تو خود اسکی انگلیاں میری قمیض
اتم چند والیہ
سوٹ اور ٹائی میں ملبوس گندمی رنگ کے ایک صاحب اکثر ہمارے دفتر کے کیمپس میں دکھائی دیتے۔ خاموشی سے داخل ہوتے اور ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھے پروفیسر جمال کے کمرے کی طرف بڑ ھ جاتے۔ حسب معمول ایک دن وہ کیمپس میں داخل ہوئے۔ خاموشی سے جمال صاحب کے روم
درد کی کمی کا کرب
صبح کی سیر کے دوران راستے میں روزانہ ہی اظہار الدین کی نگاہیں ایک پر کشش معمر خاتون پر پڑتیں۔ اس خاتون کے ایک ہاتھ میں ایک پٹّا ہوتا ہے اور اس پٹی سے بندھا ایک کتا۔ کتے کے کسے ہوئے سڈول اور چھریرے جسم پر ایک گرم کپڑے کی صدری چڑھی ہوتی جس کا رنگ
ڈُگڈُگی
شہرکے نکڑ پر ڈُگڈُگی بج رہی تھی۔ لوگ ایک ایک کرکے ڈُگڈُگی بجانے والے کے ارد گرد جمع ہوتے جا رہے تھے۔ ڈُگڈُگی بجانے والا سر سے پیر تک ایک مخصوص قسم کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی تھا ۔اس کے سر اور داڑھی کے بال تماشائیوں کے بال سے مختلف تھے۔
مسنگ مین
مِسنگ مین ہمارے اپنے مکان کی دیواروں پر میری پسند کا رنگ ابھی چڑھنا شروع ہی ہوا تھا کہ اسے دیکھ کر میرے بچّوں کی ناک بھوں سکڑ گئی۔ بیٹا بولا، ’’پاپا! یہ کیسا رنگ کرا رہے ہیں؟ پلیز اسے روک دیجیے۔‘‘ ’’ہاں، پاپا! یہ بالکل اچھّانہیں لگ رہا ہے۔ مو
ایک بڑا کھیل
ریموٹ کا بٹن دبتے ہی ٹی۔وی کے اسکرین پر ایک عجیب و غریب تصویر ابھر آئی۔ دو چہروں کے چشم و لب ورخسار آپس میں اس طرح گڈ مڈ کر دیے گئے تھے کہ اس تصویر میں کئی چہروں کا گمان ہوتا تھا۔ وہ لب، چشم اور رخسار تھے تو جانے پہچانے فلمی ستاروں کے مگرملائے اس
پارکنگ ایریا
محلے میں پہنچ گیا تھا مگر اسے خالہ کا مکان نہیں مل رہا تھا۔ چار پانچ سال پہلے جب وہ بٹلہ ہاؤس آیا تھا تو گھر آسانی سے مل گیا تھا۔ خالونے اسے بس اتنا بتایا تھا کہ مکان مسجد کے پاس ہے اور آنگن میں اشوک کا ایک پیڑ کھڑا ہے۔ مسجد کے پاس پہنچ کر آنگن
تصویرِ تخت سلیمانی
معمر شخص جس کا چہرہ، سر کے بال، جسم کی جلد، بھنویں، لباس سبھی سفید تھے اور جس کی آنکھیں رات ڈھلے تک بھی بند نہیں ہوتی تھیں اور صبح وقت سے پہلے کھل جاتی تھیں، کی نظریں حسب معمول تصویر تختِ سلیمانی پر مرکوز تھیں۔ وہ تصویر سامنے کی دیوار پر عین دروازے
حکمت
جب وہ بالکل تنہا ہو گیا تو میں اس کے پاس پہنچا اور اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’اب کیسا محسو س کر رہے ہیں؟‘‘ ’’جیسے جہنم کے ایک طبق سے نکل کر دوسرے میں پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اس نے جلے بھنے لہجے میں جواب دیا۔ ’’ایسا کیوں؟ آپ تو باعزت
کڑوا تیل
’’اس گھانی کے بعدآپ کی باری آئےگی۔ تب تک انتظار کرنا پڑےگا۔‘‘ شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلا لے کر کولھو کے پاس رکھ دیا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پربیٹھ گیا۔ کولھو کسی پائدار لکڑی کا بنا تھا اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے
ایک اور منتھن
آواز نے سب کو چونکا دیا۔متحرک پاؤں ٹھٹھک گئے۔ مصروف ہاتھ رک گئے۔ کان اعلان سننے کے لیے بےقرار ہواٹھے۔ ’’بھائیو اور بہنو! بزرگو اور بچو! آج رات کلا بھون میں دیش کی مشہور ناٹک منڈلی’’سنسکرتی‘‘ اپنا ایک ناٹک ’’ساگر منتھن‘‘ پر ستوت کرے گی۔ اس کھیل میں
سانڈ
’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘ سورج پور گاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا۔‘‘ ’’چاچا! گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔‘‘ ’’سانڈ پھر گھس آیا ہے!‘‘ بوڑھے کی سفید لمبی داڑھی
مہا رشی ددھیچی
دھاردار لمبے دانتوں، تیز نکیلے سینگوں، زہر آلود گرم سانسوں اور کئی کئی ہاتھ والے دو پائے گنڈاسے اور کمانیں سنبھالے بگولوں کی طرح دھرتی پر ڈولنے لگے۔ دانت گردنوں میں پیوست ہو گئے۔ خون کے فوارے ابلنے لگے۔ سینگوں میں جسم گتھ گئے۔ دست وپا چھٹپٹانے لگے۔
حکایتیں اور کہانی
اس نے کشکول اٹھا تو لیا تھا مگر اس کی انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔ وہ کشکول لیے چوراہے پر کھڑا تھا۔ اسے کچھ حکایتیں یاد آ رہی تھیں: ’’ایک بادشاہ کے پاس بے شمار دولت تھی مگر بادشاہ اس دولت میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا تھا۔ اس لیے
join rekhta family!
-
ادب اطفال1899
-