- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
ہاجرہ مسرور کے افسانے
فاصلے
عورت کی وفاداری اور بے لوث محبت کی کہانی ہے۔ زہرہ ریاض نامی شخص سے محبت کرتی ہے لیکن اس کی شادی نعیم سے ہو جاتی ہے۔ شادی کے دن ریاض زہرہ سے وعدہ لیتا ہے کہ تم نعیم سے محبت کرو گی اور اس کے بعد وہ جنوبی افریقہ چلا جاتا ہے۔ ادھر شادی کے دن زہرہ اپنے شوہر کو دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ کے طور پر دونوں میں علیحدگی ہو جاتی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد جب ریاض زہرہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو زہرہ پرانی یادوں میں گم رہتی ہے اور اس کی آمد پر کسی قسم کی بظاہر کوئی تیاری نہیں کرتی ہے، اسے یقین ہے کہ ریاض کی محبت ان تمام ظاہری چیزوں سے ماورا ہے۔ لیکن جب ریاض اس سے ملاقات کے لئے آتا ہے تو وہ صرف اپنے بیوی بچوں اور دنیاوی مسائل کی ہی باتیں کرتا رہتا ہے۔ اپنے تئیں کسی قسم کا اشتیاق اور تجسس نہ پا کر زہرہ بجھ جاتی ہے۔ اظہار محبت کے نام پر وہ جس قسم کے ندیدے پن کا مطاہرہ کرتا ہے اس سے زہرہ کو کراہیت ہو جاتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ وہ تو کوئی مسخرا تھا، ریاض تو آیا ہی نہیں۔
چاند کی دوسری طرف
لڑکے لڑکیوں کے رشتہ کے دوران ہونے والے مکر و فریب پر مبنی کہانی۔ وہ نیا نیا صحافی بنا تھا اور اپنے ایک تھانیدار دوست جبار کے پاس ہر روز نئی خبر لینے جایا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ جبار کے پاس تھا کہ اچانک ایک شخص منع کرنے کے باوجود تھانے میں جبار کے پاس چلا آیا۔ اس شخص نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تھانیدار کو بتایا کہ اس نے اپنی بیحد خوبصورت بیٹی کے لیے ایک اہل رشتہ طے کیا تھا۔ جب نکاح ہوا تو پتہ چلا کہ دولہا وہ لڑکا نہیں تھا، جسے اس نے پسند کیا تھا۔ بلکہ وہ تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس سے مایوس ہو کر پہلے تو اس نے داماد کو ختم کر دینے کے بارے میں سوچا۔ مگر اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
عورت
عورت کی عزت نفس اور انتقام کو بنیاد بنا کر لکھی گئی کہانی ہے۔ تصدق اور قدسیہ آپس میں محبت کرتے ہیں لیکن بوجوہ دونوں کی شادی نہیں ہو پاتی اور کاظم قدسیہ کا شوہر بن جاتا ہے۔ جس کے بعد قدسیہ تصدق کو یکسر فراموش کر دیتی ہے۔ لیکن تصدق پر اس حادثہ کا نفسیاتی رد عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کاظم وقتاً فوقتاً تصدق کو بہانہ بنا کر قدسیہ پرطنز کرتا رہتا تھا جسے قدسیہ نظر انداز کر دیتی تھی۔ ایک دن جب تصدق قدسیہ سے ملنے آتا ہے تو کاظم قدسیہ کو زہریلی ناگن سے مخاطب کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ بتاؤ اس سے کیا باتیں ہوئیں۔ قدسیہ کہتی ہے کہ جب آپ اپنی راتیں آوارہ عورتوں کے ساتھ بسر کرتے ہیں تو میں تو نہیں پوچھتی کیا باتیں ہوئیں۔ اس پر کاظم بپھر جاتا ہے۔ قدسیہ پولیس اسٹیشن فون کر دیتی ہے کہ کاظم مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اور پھر پستول سےخود کو گولی مار لیتی ہے، پولیس کاظم کو گرفتار کر لیتی ہے۔
کنیز
یہ ایک عورت کی ازلی مظلومیت اور استحصال کی کہانی ہے۔ کنیز کم عمر کی ایک مطلقہ عورت ہے جو مرادآباد سے اپنے تین بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے شوہر کی تلاش میں پاکستان آتی ہے۔ شوہر اسے گھر سے نکال دیتا ہے تو بیگم صاحبہ اپنی کوٹھی میں اسے پناہ دیتی ہیں۔ بیگم صاحبہ بظاہر کنیز کی ماں بن کر ہمدردی اور محبت کی آڑ میں جس طرح سے اس کا استحصال کرتی ہیں وہی اس کہانی کا نچوڑ ہے۔ کنیز ایک طویل مدت تک خدمت کرنے کے بعد بھی محض نوکرانی ہی رہتی ہے اور بالآخر ایک دن وہ کوٹھی چھوڑ دیتی ہے۔
ہائے اللہ
بچپن سے ہی لڑکیوں پر بے جا بندشوں سے پیدا ہونے والے نتایج کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ دادی اپنی پوتی ننھی کو اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بھی کھیلنے سے منع کر دیتی ہیں اور وقتاً فوقتاً مخلتف قسم کی تنبیہیں اور دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ننھی کا میلان اپنے چچا زاد بھائی کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور جب وہ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو ایک نامعلوم جذبہ کے تحت اپنے چچا زاد بھائی کے کمرے میں پہنچ جاتی ہے۔ صلو بھیا سو رہے ہوتے ہیں۔ بکھرے ہوئے بال اور بھیگی ہوئی مسیں دیکھ کر اور دادی کے زیادتیاں یاد کرکے اس کا دل جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور وہ اپنا سر صلو بھیا کے سینے پر رکھ دیتی ہے۔ اسی وقت دادی ننھی کو تلاش کرتی ہوئی آ جاتی ہیں اور ان کے پوپلے منہ سے ہائے اللہ کے سوا کچھ نہیں نکل پاتا۔
محبت اور۔۔۔
عورت کی مجبوریوں، محرومیوں اور مرد کی بے وفائی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ بیٹی اپنے گھر کے سامنے رہنے والے لڑکے سے محبت کرتی ہے۔ لڑکا اسے خط لکھتا ہے کہ آج آئی پی ایس کا ریزلٹ آگیا ہے اور میں کامیاب ہوں۔ آج شام کو تمہاری ماں سے بات کرنے آؤں گا۔ وہ خط ماں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ لڑکی کے سامنے شوہر و سسرال کے مظالم اور مالی مشکلات ایسے پردرد انداز میں بیان کرتی ہے کہ لڑکی اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور شام کو جب لڑکا اس سے ملنے گھر آتا ہے تو وہ اسے ٹھکرا دیتی ہے۔ لڑکی کو ایسا لگتا ہے کہ لڑکا اس سے بچھڑ کر مر جائے گا لیکن جب وہ اگلے دن بالکنی میں اسے کلی کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہے لیکن وہ شدت سے تردید کرتی ہے۔
صندوقچہ
’’اپنے ہی شوہر کے صندوق سے چوری کرنے والی ایک عورت کی کہانی۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے کے باوجود وہ رات میں سب کے سو جانے تک جاگتی رہی۔ جب گھر کے سبھی افراد سو گئے تو وہ اندر کمرے میں گئی جہاں اس کا شوہر دکان کا صندوق رکھتا تھا۔ اس کے پاس اس صندوق کی چابی تھی جو اس نے شوہر سے چھپا کر رکھی تھی۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چابی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ اس دن چوری نہیں کر سکی۔ دو دن تک وہ احساس ندامت سے روتی رہی۔ پھر تیسرے دن جب وہ چوری کرنے گئی تو اس کے شوہر نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔‘‘
ایک بچی
چھ تعلیم یافتہ بہنوں اور ایک ماں پر مشتمل کنبہ کی کہانی ہے جس کی سرپرستی ان کے چچا کرتے ہیں۔ بڑی بہن ایک اسکول میں معلمہ ہے اور باقی پانچوں بہنیں ابھی زیر تعلیم ہیں۔ بہنوں میں آپس میں کبھی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا اور وقتاً فوقتاً ایک دوسرے پر چوٹیں کرتی رہتی ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر کافی ہو چکی ہے۔ ایک رات وہ ہیڈ مسٹریس بننے کے خواب دیکھتے ہوئے اپنے روشن مستقبل کے تانے بانے بن رہی ہوتی ہے کہ چچا ایک بچی کو گود لینے کے سلسلہ میں دریافت کرتے ہیں جس کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کی ممتا جوش میں آ جاتی ہے اور وہ بچی کو گود لینے کا عندیہ ظاہر کرتی ہے۔ وہ اس بچی کے تصور میں گم ہو کر مستقبل کی پلاننگ کر رہی ہوتی ہے کہ اس کی ماں یہ کہہ کر اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیتی ہے کہ ’’پروا کیسے نہیں کروگی جب دنیا کہے گی کہ تمہاری حرامی بچی ہے، پڑھی لکھی لڑکیوں کا نام ویسے بھی بدنام ہے۔‘‘
نیلم
بچوں کی نفسیات اور توہم پرستی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ چھوٹی بچی جب ایک بلی کو پال لیتی ہے تو اس کے دادا میاں کہتے ہیں کہ بلی بڑی منحوس ہوتی ہے۔ سوئے اتفاق اسی دوران والد کا انتقال ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا عقیدہ اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ بلی منحوس ہوتی ہے اور وہ اسے ایک بوری میں بند کر کے تالاب میں پھینک آتے ہیں۔
تیسری منزل
عورت کی وفاداری اور مرد کی خود غرضی کے محور پر گھومتی ہوئی یہ کہانی ہے۔ کرشچین مس ڈورتھی جو ایک بال روم ڈانسر ہے، وہ ایک مسلمان شو میکر حنیف کے لئے اپنی تمام جذبوں کو فنا کر دیتی ہے۔ اس کے کاروبار کو ترقی دیتی ہے، اس کے بیوی بچوں کو بھی خوش دلی سے قبول کرتی ہے لیکن اخیر میں حنیف صرف ایک بے وفا مرد ثابت ہوتا ہے۔ شہری زندگی کے واقعات اور کرایہ کے مکان کا سہارا لے کر انسان کی خود غرضی کو بھی اس کہانی کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔
بندر کا گھاؤ
متوسط طبقہ کی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ عنفوان شباب کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی طور پر اپنے پڑوس میں رہنے والے ایک طالب علم کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور اس سے ملنے کی خاطر رات میں اپنی چھت پر چڑھتی ہے لیکن خوف کی وجہ سے وہ زینوں سے لڑھک جاتی ہے۔ اس کے اس عمل سے گھر والے جاگ جاتے ہیں اور پھر باپ اور بھائی کی غیرت جوش میں آ جاتی ہے اور وہ اسے ادھ مرا کر کے سسک سسک کر زندہ رہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
بے چاری
میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کی نوک جھونک پر مبنی کہانی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوتی ہے لیکن مالی حالات کمزور ہونے کے باعث بعض ضرورتیں وقت پر پوری نہ ہونے سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ اس کہانی میں چھوٹے بچے کے لئے گاڑی لانے کے سلسلہ میں ہونے والی نوک جھونک مزاحیہ انداز میں بیان کی گئی ہے۔
کمینی
طبقاتی کشمکش کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ چھٹکی جو ایک فقیر کی بیٹی تھی لیکن اسے یہ پیشہ کبھی پسند نہ آیا۔ اسی لئے جب اس کے باوا کا انتقال ہو گیا تو اس نے ایک گھر میں جھاڑو پونچھا کرنے کا کام شروع کر دیا، جہاں معراجو میاں سے اس کی آشنائی ہو جاتی ہے اور اس آشنائی کا نتیجہ نکاح کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا سارا ٹھیکرا چھٹکی کے سر ہی پھوڑا جاتا ہے اور معراجو میاں کو معصوم سمجھ کر بری کر دیا جاتا ہے۔ سارا خاندان جب معراجو میاں کا بائیکاٹ کر دیتا ہے تو وہ چھٹکی کے ساتھ الگ رہنے لگتے ہیں۔ چھٹکی ایک شریف اور عزت دار بیوی کی طرح اپنے حقوق منوانا چاہتی ہے جس کے نتیجہ میں ہلکی پھلکی چپقلش ہوتی ہے۔ ادھر خاندان والوں کا خون جوش مارتا ہے اور ایک تقریب میں معراجو کو چھٹکی سمیت مدعو کیا جاتا ہے لیکن وہاں چھٹکی کو ایک دسترخوان پر بٹھا کر کھانا نہیں کھلایا جاتا ہے جس سے چھٹکی دل برداشتہ ہو جاتی ہے۔ معراجو میاں جو ایک مدت کے بعد اپنے خاندان والوں کے حسن سلوک کے نشے میں ہوتے ہیں، ایک معمولی سی بات پرچھٹکی کو حرام زادی، کمینی کہہ کر گھر سے بے دخل کر دیتے ہیں۔
سندباد جہازی کا نیا سفر
تمثیلی پیرایہ میں سرمایہ داری کے تارو پود کو بکھیرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں سرمایہ داری، جاگیر داری اور شہنشاہیت کے مخلتلف روپ اور ان کے معاون و آلہ کار افراد کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔
معصوم محبت
بچوں کی نفسیات پر مبنی ایک پراثر کہانی ہے۔ عموماً گھر کے بڑے لوگ اپنی مصروفیات اور معاملات میں الجھ کر بچوں کی نفسیاتی کیفیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں، جس کے نتائج بسا اوقات سنگین ہو جاتے ہیں۔ صلاح الدین ملازمت کے سلسلہ میں اپنی خالہ کے یہاں مقیم ہے، تنویر صلاح الدین کی ہم عمر جب کہ منیر ایک چھوٹی بچی ہے۔ صلاح الدین اور تنویر ایک دوسرے میں کشش محسوس کرتے ہیں لیکن سماجی مجبوریوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ منیر جب ایک دن صلاح الدین کی اداسی کا سبب معلوم کرتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ صلو بھیا کی اداسی کا سبب تنویر ہے تو اپنی معصومانہ کوشششوں سے دونوں کو مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جب تنویر اور صلاح الدین کی شادی ہو جاتی ہے تو صلاح الدین منیر کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے منیر حد درجہ اداس رہنے لگتی ہے اور جب صلاح الدین اپنی بیوی کے ہمراہ دلی جانے لگتے ہیں تب بھی وہ اس سے پیار سے پیش نہیں آتے ہیں۔ صلاح الدین کے جانے کے بعد منیر خوب روتی ہے، اسے بخار آ جاتا ہے اور بالآخر اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-