حامدی کاشمیری کے اشعار
کرتے ہو بند سلاسل کس لیے
میری شہ رگ میں ہے زنجیر ہوا
تشریح
ارسطو نے مطالبہ کیا تھا کہ کسی مماثل یا متوازی شے کی جگہ استعمال ہونے والے استعارے میں تقلیب کا وصف ہونا چاہیے۔ زیرِ بحث شعر میں ’’زنجیرِ ہوا‘‘ کا استعارہ مفہوم کی کئی سطحوں پر تقلیب کرتا ہے۔ بظاہر شعر کا پہلا مصرعہ اس قدر شدّتِ تاثر کا حامل نہیں جس قدر دوسرے مصرعے میں شاعر کی غیرمعمولی اور حیران کن ذکاوت یا ظرافت کا مظاہرہ ہوا ہے۔ لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ ’’پابندِ سلاسل کے ساتھ ’’زنجیرِ ہوا ‘‘ کا ربط لازم و ملزوم کا درجہ رکھتا ہے۔ اگرچہ ’’زنجیرِ ہوا‘‘ خود استعارہ تخیلیہ ہے مگر ’’پابندِ سلاسل‘‘ کی ترکیب اسے استعارہ عامیہ بنا دیتی ہے۔ زنجیرِ ہوا کی ایک اور خوبی یہ کہ اسے ایسی تجریدی ترکیب کا درجہ حاصل ہے جو استعاراتی معنی کو شعر کے دیگر عناصرِ ترکیبی سے مربوط کرکے مضمون کی شدّت کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ یعنی زنجیرِ ہوا ایک ایسا استعارہ ہے جو ’’پابندِ سلاسل ‘‘ میں کئی سطحوں پر تقلیبِ عمل کو حرکت بخشتا ہے۔ ورنہ بظاہر یا رویت کی رُو سے بندِ سلاسل اور زنجیر کے معنوی، لفظی اور مجازی و رمزی انسلاکات اور تلازمات کچھ اور ہیں۔ مثلاً بندِ سلاسل، زنجیر،حلقہ وغیرہ کا اردو غزل کی روایت میں یا تو جنون یا پھر( محبوب کی ) زلف کے ساتھ استعاراتی یا علامتی ربط رہا ہے۔ مگر میرؔ کی صنّاعی اور غالب کی نازک خیالی کی کیا نظیر فراہم کریں؎
نالہ کش ہیں عہدِ پیری میں ترے در پہ ہم
قد خمِ گشتہ ہمارا حلقہ ہے زنجیر کا
( میرؔ)
بس کہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
(غالبؔ)
ورنہ صورتِ حال وہی رہی ہے جو ولیؔ دکنی کے اس شعر سے بنتی ہے؎
کشورِ دل کوں ترے ناز نے تسخیر کیا
فوجِ مجنوں کوں تری زلف نے زنجیر کیا
( ولیؔ دکنی)
زیرِ نظر شعر میں دو کردا ر ہیں۔ ایک متکلم اور دوسرا اسے پابندِ سلاسل کرنے والا۔ زنجیرِ ہوا( جس کی کوئی مادی یا ظاہری شکل نہیں ہے) کی ترکیب میں ہوا بذاتِ خود استعارہ بالتصریح ہے اور اس کے اندر جو رمز موجود ہے وہ پابندِ سلاسل کرنے والے فرد( داروغۂ زندان، ظالم و جابر حکمران، جو بھی ہو) کے طنطنے اور جبروت کو مٹّی میں ملادیتا ہے۔غورطلب یہ بات ہے کہ زنجیر اور ہوا اپنی فطرت ، خصلت اور خاصیت کے اعتبار سے اور معنوی اعتبار سے متغیّر بھی ہیں اور متناقص بھی۔ زنجیر جہاں کسی کو پابند کرسکتی ہے وہاں وہ خود بھی حلقوں میں قید ہوتی ہے۔ کیونکہ حلقوں کے تسلسل اور ترتیب کے بغیر زنجیر کا تصوّر یہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس ہوا فطری طور پر آزاد، خود مختار اور حرکی ہے۔ اسے اپنے وجود کے لیے نہ کسی ترتیب و ترکیب کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ اسے قید کیا جاسکتا ہے۔ مگر شاعر نے جس طور کی ہنرمندی کے ساتھ ترکیب تخلیق کی ہے اسے تخلیقی عمل کی معراج کہا جاسکتا ہےکہ دونوں میں کسی بُعد کو محسوس نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کی کرتے ہیں اور جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔
شعر کی نثری صورت یہ بنتی ہے:’’ مجھے پابندِ سلاسل کیوں کررہے ہو(تمہیں خبر نہیں ) میری شہ رگ میں ہوا کی زنجیر ہے۔‘‘ سادہ اور سلیس الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ (اے ظالم! ) مجھے زنجیروں میں کیوں جھکڑ رہے ہو ( کیا تمہیں معلوم نہیں )میری شہ رگ میں میرا وجود رہتا ہے؟مصرعۂ ثانی(بین السطور) جب تک تم مجھے قتل نہیں کرتے ، تب تک زنجیر نہیں کرسکتے۔ یعنی میری سانسوں کی زنجیر کھول کے ہی تمہیں( میری بغاوت، جنون، شورش وغیرہ سے) نجات مل سکتی ہے۔ شعر کا پہلا مصرعہ استہفامیہ ہے۔’’کس لیے‘‘ یعنی میرا جرم کیا ہے؟ /تم مجھے جرمِ بے گناہی میں قید نہیں کرسکتے۔ یہاں متکلم کی معصومیت، استعجاب اور مجبوری ظاہر ہوتی ہے۔
مصرعۂ ثانی خبریہ ہونے کے وصف سے اہم ہے۔’’ میری شہ رگ میں ہے زنجیرِ ہوا‘‘ اس مصرع کے مختلف الفاظ کو زور دے کے ادا کیجیے تو مفہومِ شعر کی کئی سطحوں پر تقلیب ہوجاتی ہے۔ مثلاً ’’ میری‘‘ پر زور دیں تو مفہوم یہ بمد ہوتا ہے کہ’’ تم دوسروںکو کس لیے بندِ سلاسل کررہے ہو جبکہ زنجیرِ ہوا میری شہ رگ میں ہے۔ یعنی اصلی مجرم تو میں ہوں۔‘‘ اس طرح شعر میں دوسرے کرداروں کی موجودگی بھی محسوس ہوتی ہے۔ علی ھذالقیاس ’’شہ رگ‘‘ پربل دیجیےتو مفہوم یکسر بدل جاتا ہے۔ یعنی میرے جسم کو زنجیر کونا عبث اور بے سود ہے جبکہ میرا اصلی وجود (شورش، بغاوت، جنون کا ذریعہ) میری شہ رگ میں ہے۔ زنجیرِ ہواپرپر زور دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرے ہاتھ پاؤں میں زنجیر ڈالنے کا عمل فضول ہے یعنی اس آدمی کو زنجیر کرنے سے کیا فائدہ جس کی شہ رگ میں زنجیرِ ہوا (سانس، زندگی، بغاوت کا جذبہ) پڑی ہو،۔ یہاں شہ رگ میں زنجیرِ ہوا کی موجودگی کو مزاحمت کے استعارے سے تعبیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ٹھہریے! اب ذرا ’’میری ‘‘ کو استہفامیہ بنا دیجیےتو مفہوم یکسر بدل جاتا ہے۔ یعنی تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ میری شہ رگ میں زنجیر ِ ہوا پڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح شہ رگ اور زنجیرِ ہواکو استہفامیہ بنادیجیےتو شعر کے مفہوم کچھ کے کچھ ہوجائیں گے۔ میری دانست میں شعر کے امکانی مفہوم کی کوئی اور صورت نہ بچتی اگر سراج اورنگ آبادی کا یہ شعر حافظے سے اچانک نہ نکلتا؎
گرفتارِ ہوس کی لذّتِ دیدار کوں پاوے
جدا جو کوئی ہوا ہے آپ سیں پایا وصال اس کا
اب ذرا ہوا بمعنی حرص، ہوس ، خواہش، فنا،نیست پر غور کریں۔ یعنی(۱) حرص و ہوس کی زنجیر تو میری گھٹی میں پڑی ہے تم میرے جسم پر کیوں پابندیاں عائد کرتےہو، ،میرے نفس کو مار ڈالو۔(۲) میرے وجود میں نیستی کی زنجیر پڑی ہے اب مجھے کسی اور زنجیر سے قید کرنا عبث ہے۔ یعنی میں اپنے وجود کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔(واللہ اعلم بالصواب)
کمال کا شعر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق سوپوری