ہلال سیوہاروی کا تعارف
ہلال سیوہاروی کا نام قاضی حبیب الرحمن تھا ۔ ان کی پیدائش 15جنوری 1928 ء کو ضلع بجنور (یو پی) کے قصبہ سیوہارہ میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام قاضی فضل حق تھا ۔ چونکہ خاندان میں شعر و شاعری موروثی طور پر چلی آرہی تھی ، اس لئے ہلال کو شاعری وراثت میں ملی ۔ ان کے والد بھی شعر و سخن کا اعلی ذوق رکھتے تھے ۔ جبکہ ان کے پردادا قاضی ظہور الحق کا شمار ان کے عہد کے فارسی اور اردو کے ممتاز شعراء میں ہوتا تھا ۔ بچپن سے ہلال کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے تھے ۔ چنانچہ جب انھیں آٹھ برس کی عمر میں داخلہ دلایا گیا تو بمشکل تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کرنے بعد مدرسے کی چہار دیواری سے ہمیشہ کے لئے دوری اختیار کرلی ۔ باضابطہ طور پر تو تعلیم حاصل نہیں کی لیکن گھر کے ادبی ماحول اور سیوہارہ کے شعر و سخن کی آب و ہوا نے انھیں مطالعہ کرنے پر مجبور کیا ۔ پھر وہ شاعری کی وادی میں ایسے داخل ہوئے کہ عمر بھر اس کے ہی ہو کر رہ گئے ۔ زمانے کی رفتار انھیں پسند نہیں تھی ۔ سماجی نظام میں بھید بھاؤ کے سخت مخالف تھے اور محنت کشوں کو چلچلاتی دھوپ میں دو وقت کی روٹی کے لئے پسینہ بہاتے ہوئے دیکھ کر ان کا دل پسیج جاتا تھا ۔ عدم مساوات اور ظلم و جبر کے نظام سے وہ نالاں تھے ۔ یہی وہ وجوہ تھیں ، جن کے باعث ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس فرسودہ اور استحصانی نظام کے خلاف آواز بلند کی جائے اور اس کے لئے انھیں سب سے بہتر ذریعہ شاعری محسوس ہوا اور وہ بس شاعری کے اسیر بن گئے ، لیکن شاعری کو مقصدیت کے خانے سے کبھی بھی الگ نہیں کیا ۔ ہلال سیوہاروی سیاسی و سماجی موضوعات پر سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں انداز سے شعر و سخن کے ذریعے ادبی منظرنامے پر جلوہ گر ہوئے ۔
ایم اسلم صدیقی نے ہلال سیوہاروی کی شاعری اور ان کے شعری موضوعات کے حوالے سے درست لکھا ہے :۔ ’’مشینوں کے پُرزوں کو درست کرتے کرتے وہ طنز و مزاح کے چھینی ہتھوڑے سے زندگی کے نشیب و فراز کی درستگی کے لئے کوشاں ہوگئے ۔ محنت کش ، غریب ، مفلوک الحال طبقے کی زندگی کو انھوں نے قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا، جس کے دامن میں خوشیاں کم تھیں ، مگر دکھ ، درد اور مسائل کے بوجھ کہیں زیادہ تھے ۔ ان دکھوں کو ہلال نے طنز و مزاح کی چاشنی میں ڈبو کر دنیا کے سامنے اس سلیقے سے پیش کیا کہ سچائی کی تلخی اور معصومیت دل پر اثر پذیر ہونے کے باوجود محفل کو قہقہہ زار بنادیتی ۔ طنز و مزاح کے رنگ سے شرابور ان کی نظمیں ملک اور بیرون ملک کے مشاعروں میں کافی مقبول ہوئیں، جن میں انھوں نے مفاد پرست سیاست ، انسانیت کی دشمن فرقہ پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام پر زبردست چوٹیں کیں اور طنز کے تیر برسائے‘‘ ۔
(مضمون ، ہلال سیوہاروی ، ایم اسلم صدیقی ، مطبوعہ عالمی اردو ادب ، جولائی 2014 صفحہ 247)
چونکہ ہلال ایک مل میں فٹر کے طور پر ملازم تھے تو انھیں مزدوروں کی حالت زار کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ ان کی زندگی کی تلخیوں اور جابرانہ نظام کو محسوس کرنے اور اسی ماحول میں جینے کا موقع ملا ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور طنز بھرے لہجے میں شاعری کے قالب میں اپنے احساسات و تجربات کو ڈھالنے کا خوبصورت فریضہ انجام دیا ۔ سیاسی نظام اور قومی لیڈران کی منافقانہ ذہنیت کو شاعری کا موضوع بنایا ۔ عیش و آرام کی زندگی گزارنے والوں اور غریبوں کا استحصال کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا ۔ سرمایہ داروں کی ذہنیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ اقتدار کی ہوس پالنے والوں پر طنز کے تیر برسائے اور غریبوں کا لہو چوسنے والوںکو ہدف ملامت بنایا ۔ سیاست کرنے والے اپنے تمام اخلاقی اقدار اور انسانی اوصاف کوبالائے طاق رکھ کر اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ کبھی ایک دوسرے کے دشمن تو کبھی ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں ۔ نہ ان کا کوئی اصول ہوتا ہے اور نہ ہی مخصوص نظریہ ۔ بس وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے نظریات بدلتے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں ۔ اسی موضوع پر ہلال سیوہاروی نے 1963 میں ایک نظم ’’گٹھ جوڑ‘‘ کہی تھی ، جو ان کی سیاسی بصیرت کی غمازی کرتی ہے ۔ سیاسی قائدین جب ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور اپنے ازلی دشمن کو یار غار بنالیتے ہیں ، تو ایسی حالت میں وہ ایک دوسرے سے کیا کہتے ہیں ، آپ ان کی گفتگو ہلال سیوہاروی کی زبانی ملاحظہ کیجئے :۔
ہم میں کوئی بھی ہو ، ہر اک کو ہے عزت پیاری
تم کو کرسی کی ہوس ، ہم کو ہے دولت پیاری
تم کو اس دیس کا غم ، ہم کو حکومت پیاری
گویا ہر شے ہے ہمیں ، حسب ضرورت پیاری
ان وِچاروں سے جدا ، ہم بھی نہیں ، تم بھی نہیں
آؤ مل جائیں ، خفا تم بھی نہیں ، ہم بھی نہیں
ہلال سیوہاروی نے ایک شاہکار سنجیدہ نظم 1964 ء میں بعنوان ’’خون کی مانگ‘‘ کہی تھی ۔ حالانکہ اس نظم میں جس قدر طنز سے کام لیا گیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہلال کو استحصالی نظام اور جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ ماحول سے کس قدر نفرت تھی ۔ اس نظم کا پس منظر یہ ہے کہ 1964 میں جس وقت ہندوستان کی حکومت نے لڑائی میں زخمی ہوئے فوجیوں کے لئے عوام سے خون کے عطیہ کی اپیل کی تھی ۔ہلال سیوہاروی نے اس اپیل پر اپنا ردعمل کا منظوم طور پر اظہار کیا تھا ۔ ملاحظہ کیجئے ان کی مشہور نظم ’’خون کی مانگ‘‘ سے یہ چند بند:۔
خون کی مانگ ہے اس دیش کی رکھشا کے لئے
میرے نزدیک یہ قربانی ہے چھوٹی ، دے دو
لیکن اربابِ حکومت سے بھی کہنا ہے مجھے
جن کے خوں مانگ رہے ہو ، انھیں روٹی دے دو
ان غریبوں کا لہو بہہ چکا بن کے پانی
زندگی ہے کہ ، بہرحال لئے بیٹھے ہیں
خشک ڈھانچوں سے نچوڑو نہ لہو کی بوندیں
خون لو ان سے کہ جو خون پئے بیٹھے ہیں
جن کے چہروں سے چمکتا ہے غریبوں کا لہو
جن کی آنکھوں میں چھلکتا ہے غریبوں کا لہو
ان کے میخانوں میں جاؤ تو کبھی رات ڈھلے
ان کے ساغر سے چھلکتا ہے غریبوں کا لہو
مودی و ٹاٹا و برلا کے ٹھکانے دیکھو
خون ہی خون ہے ، تم ان کے خزانے دیکھو
سستے داموں جو لیا ہے ، وہ لہو ان سے لو
ان کے شیشوں میں بھرا ہے ، وہ لہو ان سے لو
پونجی والو ! بڑا احسان کیا ہے تم نے
قوم کا دامنِ صد چاک ، سیا ہے تم نے
وقت کی نبض کو ، پہچان لیا ہے تم نے
آج سونے کا بڑا دام ، دیا ہے تم نے
اب رہا خون تو وہ ، اہل جنوں دے دیں گے
سونا دینے کو نہ ہوگا ، تو یہ خوں دے دیں گے
دیکھنا ہے تو ذرا رنگ ملاؤ دیکھو
اپنے سونے کی سلاخوں کو تپاؤ دیکھو
گرم ہو کر جو ذرا رنگ نکھر آئے گا
ہم غریبوں کا لہو صاف نظر آئے گا
خون کی مانگ ہے اس دیش کی رکھشا کے لئے
اس نظم میں جو درد ، کرب ، اضطراب ، اضمحلال اور شاعر کے احساس کی چنگاری ہے وہ عام دلوں کو بھی جھنجھوڑے بغیر نہیں رکھتی ہے۔ شاعر کے جو احساسات کاغذ کے صفحات پر مرتسم ہوئے ہیں ، وہ سماج کے حاشیئے پر پڑے افراد کی قربانیوں کی حقیقی داستان اور سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضرب ہے ۔ استحصالی مزاج پر زبردست طمانچہ ہے اور حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والے محنت کشوں کی داستان درد والم ہے ۔ یہ وہ محنت کش طبقہ ہے جس کا خون اور پسینہ ملک کی تعمیر وترقی میں لگ جاتا ہے ۔ لیکن ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں ہوتا ۔ انھیں محنت سے بہت کم مزدوری دے کر اپنے درِ دولت سے سرمایہ داریوں جدا کردیتے ہیں جیسے ان پر کوئی احسان کررہے ہیں جبکہ وہ انہی مزدوروں کی محنت اور خون پسینہ کی بدولت عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں ۔ آرام دہ بنگلوں میں راحت کی سانس لیتے ہیں اور ملکی معیشت کو فروغ دینے اور مستحکم بنانے کا دعوی کرتے ہیں ۔ کیا ان کے ان دعوؤں میں صداقت ہوتی ہے ؟ ہلال سیوہاروی نے محنت کشوں کو ان اقتدار پسند لوگوں ، آرام پسند سیاستدانوں اور دولت مند افراد سے بہتر تصور کیا ہے ۔ انھوں نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں نہایت طنزیہ انداز اپناتے ہوئے گدھے کی زبانی لیڈر کی حقیقت بیان کی ہے اور ان کی آرام دہ زندگی کو گدھے کی زندگی سے بدتر قرار دیا ہے ۔
اک گدھے سے کہا میں نے کہ میاں اچھے ہو
بولا اینٹوں سے لَدا پھرتا ہوں کیا اچھا ہوں
میں نے اس سے کہا اس دور میں لیڈر بن جا
بولا اس سے تو سرکار گدھا اچھا ہوں
کوئی تعمیر ہو لدتی ہیں مجھی پر اینٹیں
پھر بھی مہنگا نہیں کچھ سستے ہی دام آتا ہوں
اپنے بنگلوں میں پڑے رہتے ہیں لیڈر اکثر
میں گدھا ہو کے بھی اس دیش کے کام آتا ہوں
ان اشعار میں کتنی حقیقت بیانی ہے ۔ کیسا طنز ہے؟ کیسا تیکھا پن اور کیسی تنقید ہے ؟ اس کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ لیڈروں کے صفات سے بھلا کون شخص ہے جو ناواقف ہے ۔ انھیں عیش و آرام کی زندگی کے علاوہ اور کسی سے کیا مطلب ؟ تعمیری کاموں میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے ۔ ہلال صاحب نے گدھے کی زبان سے اپنی فکری اور تخیلاتی پرواز کی بلندی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شاعر قوم کا نباض ہوتا ہے ۔ وہ سماج کا منظرنامہ اتنے خوبصورت انداز اور مختصر لفظوں میں بیان کردیتا ہے ، جسے پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں ، دل سہم جاتا ہے ، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ ہلال کی شاعری کی جہات کی دہلی کے ایک ادیب فاروق ارگلی نے اپنے مخصوص انداز میں یوں صراحت کی ہے :
’’ہلال صاحب نے اپنی شاعری کو سماج کی بہت سی خرابیوں کے خلاف ایک مصلحانہ تحریک کی صورت بخشی تھی ۔ انھوں نے طنز کی دودھاری تلوار سے موجودہ دور کی سماجی زندگی میں گہرائی تک اتری ہوئی بداعمالیوں ، اخلاقی پستیوں ، سیاسی جبر و استحصال اور حکومتی نظام کی بدعنوانیوں پر کاری ضرب لگائی اوردنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو ہنسا ہنسا کر زندگی کی تلخ حقیقتوں پر غور وفکر کی مؤثر تلقین بھی کی ۔ ہلال سیوہاروی ، سید ضمیر جعفری ، شہباز امروہوی ، رضا نقوی واہی ، دلاور فگار اور ساغر خیاّمی جیسے نامور طنز و مزاح کے شعراء کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہلال سیوہاروی اشتراکی نظریۂ فکر کے حامل ترقی پسند شاعر تھے ، ان کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا ۔ سرمایہ و محنت کی روایتی کشمکش کے موضوع پر سنجیدہ شاعری بہت کی گئی ہے ، لیکن پرولتاریہ طبقے کے اس حساس شاعر نے طنز و مزاح کے پیرائے میں سرمایہ داری اور طبقہ واریت پر بیحد بلیغ فنکارانہ اسلوب میں براہ راست حملہ کیا تھا‘‘ (مضمون قہقہوں میں قید غم کی داستان ، ہلال سیوہاروی ، فاروق ارگلی ، مطبوعہ ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی ۔ شمارہ جنوری 2013 صفحہ 13)
ہلال صاحب نے اپنی شاعری میں روزمرہ کی معمولی معمولی چیزوں کو علامتی طورپر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے طنز کا کام لیا ہے ۔ ان کی خاص علامتوں میں گدھا ، مچھر ، جوتا اور الوّ وغیرہ ہیں۔ ان علامتوں کے ذریعے وہ استحصالی قوتوں ، بڑی بڑی شخصیتوں کی لوٹ کھسوٹ ، منافع خوری ، کرپشن اور دیگر برائیوں کو ہدف تنقید و طنز بناتے ہیں ۔ ان کے لہجے میں عوامی بول چال کے اثرات ہیں اور سیدھے دل میں اتر جانے والی ان کی زبان ہے ۔ وہ انسانی آزادی کی حرمت کو پامال کرنے والوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ ہر شخص کو جرأت وہمت کا پیکر اور مستحکم ارادوں کا مالک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم سے ان کا دل تڑپ اٹھتا ہے اور استحصال کرنے والے پنجوں کو مروڑ دینے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ ہلال سیوہاروی کی شاعری میں ایک ایسا معاشرہ نظر آتا ہے جو جبر و استحصال اور ناانصافی کاشکار ہے ، جو اپنے حقوق سے محروم ہے اور جن سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اثر و رسوخ اور دولت والے ہیں ۔ جن کے پاس کارخانے ہیں ، جن کے پاس انڈسٹریاں ہیں اور جو مزدوروں کا خون چوس کر دولت کی ریل پیل لگادیتے ہیں ، لیکن مزدوروں کے خون پسینے کے ذریعے تیار کی گئی اینٹوں پر اپنا عالیشان محل تعمیر کرتے ہیں اور آسودہ زندگی گزارتے ہیں ۔
ہلال سیوہاروی کی مشہور طنزیہ و مزاحیہ نظموں میں ’’خون کی مانگ‘‘ ’’انگوٹھا چھاپ‘‘ ’’کتوں کی کانفرنس‘‘ نہرو ’’عالم ارواح میں‘‘ ،’’ سرخ بادل‘‘ ، ’’جوتا‘‘ ، اے ایمرجنسی ، ’’مچھروں سے پریشان ہو کر‘‘ ،’’ غالب گھر ‘‘، ’’غالب ہمدرد دواخانہ میں‘‘ ، ’’مشورہ برائے شاعر‘‘ ، اور ’’خون بہاؤ ‘‘وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے دو مجموعے فریب سحر اور فریب نظر کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انھیں 1987 میں غالب ایوارڈ(برائے شاعری) سے نوازا جاچکا ہے ۔
ہلال سیوہاروی نے فرقہ پرستی کو تباہی اور نفرت کا پیش خیمہ قرار دیا ہے ۔ ان کی شاعری فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند کرتی ہوئی اتحاد کی وکالت کرتی ہے ۔ آپسی اتحاد کا پیغام دیتی ہے ، جس کی آج ملک کو شدید ضرورت ہے ۔ ان کے یہ اشعار اسی حوالے سے موجودہ حالات پر گہرا طنز کا کام کرتے ہیں اور فرقہ پرستی کے منفی نتائج سے متنبہ کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے ان کے یہ تین اشعار
یہی حالات ہیں تو پھر کوئی سیلاب پھوٹے گا
گرج ہوگی ،چمک ہوگی ، کوئی سیارہ ٹوٹے گا
جلا کر راکھ کردے گا ،جو مسجد کو شوالوں کو
نگاہیں ڈھونڈتی رہ جائیں گی کل کے اجالوں کو
نہ سنبھلے تم تو پھر کوئی نیا طوفان آئے گا
مدد کو رام آئیں گے ، نہ پھر رحمان آئے گا
ہلال کی شاعری میں بلا کا طنز اور دلچسپ مزاحیہ پہلو نظر آتا ہے ، لیکن انھوں نے نہایت سنجیدہ اور حساس موضوعات کو بھی چھونے کی کوشش کی ہے ، جو موجودہ ماحول کے تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ مختصراً بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ہلال نے طنز و مزاح کے انداز میں جن عصری مسائل اور موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ، وہ واقعتاً ہر شخص کے مسائل ہیں ، جن سے ہر شخص نبرد آزما ہورہا ہے ، اس لئے ان کی شاعری کی معنویت بڑھ جاتی ہے ۔ ان کی شاعری سادگی اور روانی کا پیکر ہے ۔ لفظوں کے انتخاب میں بڑی چابکدستی کا مظاہرہ نظر آتا ہے یہی ان کی شاعری کا امتیاز وصف ہے ۔ لیکن ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے انھیں صرف مشاعرے کا شاعر سمجھ کر نظر انداز کردیا ، حالانکہ ان کی شاعری ظریفانہ شاعری کے باب میں اہم مقام رکھتی ہے ۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ کلام کو ادبی نقطۂ نگاہ سے پرکھنے کی ضرورت ہے ، تاکہ ان کے کلام کی ادبی قدر و قیمت کا تعین کیا جاسکے ۔ معاصر نقادان ادب کا وطیرہ یہ بن چکا ہے کہ انھیں غالب ، اقبال ،میر،نظیر اور اکبر سے اب تک فرصت ہی نہیں ملی ہے ۔ بھلا وہ کہاں ہلال جیسے مشاعرے کے شاعر کو درخور اعتنا سمجھیں گے ۔ حالانکہ چھوٹے مقامات میں بھی بڑے شاعر موجود ہیں ، جو ناقدان ادب کی توجہ کے محتاج ہیں ۔ ان پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ افسوس کہ اس عظیم شاعر سے ہم 15 نومبر 2012 کو محروم ہوگئے ۔