- کتاب فہرست 182760
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1919
طب861 تحریکات289 ناول4227 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1045
- ہائیکو12
- حمد39
- مزاحیہ36
- انتخاب1534
- کہہ مکرنی6
- کلیات663
- ماہیہ19
- مجموعہ4779
- مرثیہ372
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت522
- نظم1172
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی289
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ہما فلک کے افسانے
حسرت
اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ہوا کی ایک سرد لہر نے ان کا استقبال کیا۔ اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے اس لئے ستیشن والی تنہائی کا احساس وہاں نہیں تھا،ایک طرف چائے کا کھوکھا تھا، لڑکے نے دو کپ چائے لی اور ذرا پرے سٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑے بینچ پر دونوں بیٹھ گئے۔ بینچ
ہلدی والی
سردیوں کی تعطیلات کی وجہ سے کچھ مہمان میری طرف آ رہے تھے۔۔۔ مہمانوں کی تواضح میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے اس بات کا میں خاص خیال رکھتی تھی۔ اس مقصد کے لئے میں دو تین دن پہلے ہی تیاری شروع کر دیتی اور ہر معمولی سی بات کا بھی خیال رکھتی۔ میری اتنی محنت
ببول
میں کیسے بیاں کروں وہ درد وہ کرب جو یہ لوگ محسوس کرتے ہونگے ۔ یہ ادھورے بچے____ یہ نامکمل زندگیاں___ کیسے لکھ دوں ان کا دکھ____ تم لوگ کہتے ہو فطرت ماں جیسی ہے مہربان۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔ فطرت تو بہت ظالم ہے۔۔۔ اس کے لئے کوئی اچھا نہیں کوئی برا
وقت سے پرے
اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان چلتے ہوئے وہ خود کو بہت بونا سا محسوس کرتا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی ان عمارتوں، ان راستوں کو دیکھا تھا ان کے درمیان لاتعداد بار گزرا اتنی بار کہ اسے لگنے لگا تھا جہاں جہاں اس کے قدم پڑے ہیں وہاں تو گڑھے بن جانے چاہئیں تھے۔
زنجیریں
وہ چلتا جا رہا تھا۔ سفر کہاں سے شروع ہوا، اسے یاد تھا کہاں ختم ہوگا وہ نہیں جانتا تھا۔ بچپن کی کچھ دھندلی یادیں تھیں۔ باپ کا سخت گیر رویہ اور منہ پر دوپٹہ رکھ کر سسکتی ہوئی ماں __جواسے جب الماریاں الٹا کر پیسے نکالتے دیکھتی تو چیل کی طرح جھپٹ پڑتی،
اگر
’’سیمی ایک کپ چائے تو بنا دو۔ پلیز‘‘ ’’اس وقت؟ یہ کون سا وقت ہے چائے پینے کا ؟ رات کو نیند بھی نہیں آئےگی۔‘‘ سیمی جو کہ پوری طرح ناول میں گم تھی اسے یہ بے وقت کی راگنی بہت کھلی۔ ’’میرا ابھی موڈ ہے چائے پینے کا تو کیا اب میں صبح کا انتظار کروں؟‘‘ ’’افوہ۔۔۔
ایوارڈ
تالیوں کی گونج میں وہ سٹیج کی طرف بڑھی۔ آج اس کے لئے بہت بڑا دن تھا۔ اس کی خوشی کی انتہانہ تھی اور خوش ہوتی بھی کیوں نہیں آج وہ اپنی ایک نظم کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ کی حقدار قرار پائی تھی۔ یہ اسکا دیرینہ خواب تھا، جو آج پورا ہونے جا رہا
join rekhta family!
-
ادب اطفال1919
-