تمام
تعارف
غزل30
نظم31
شعر31
ای-کتاب40
اقوال11
طنز و مزاح31
تصویری شاعری 6
آڈیو 18
ویڈیو 31
مضمون1
گیلری 2
بلاگ3
ابن انشا کے طنز و مزاح
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔ ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے
نجات کا طالب، غالب
(چند خطوط) (۱) ’’لو مرزا تفتہ ایک بات لطیفے کی سنو۔ کل ہر کارہ آیا تو تمہارے خط کے ساتھ ایک خط کرانچی بندر سے منشی فیض احمد فیض کا بھی لایا جس میں لکھا ہے کہ ہم تمہاری صدسالہ برسی مناتے ہیں۔ جلسہ ہوگا جس میں تمہاری شاعری پر لوگ مضمون پڑھیں گے۔
کسٹم کا مشاعرہ
کراچی میں کسٹم والوں کا مشاعرہ ہوا تو شاعر لوگ آؤ بھگت کے عادی دندناتے پان کھاتے، مونچھو پر تاؤ دیتےزلفِ جاناں کی بلائیں لیتےغزلوں کے بقچےبغل میں مارکر پہنچ گئے۔ ان میں سے اکثر کلاتھ ملوں کے مشاعروں کے عادی تھے۔ جہاں آپ تھان بھر کی غزل بھی پڑھ دیں
فیض اور میں
بڑے لوگوں کے دوستوں اور ہم جلیسوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دوستی اور ہم جلیسی کا اشتہار دے کر خود بھی ناموری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے وہ عجز و فروتنی کے پتلے جو شہرت سے بھاگتے ہیں۔ کم از کم اپنے ممدوح کی زندگی میں۔ ہاں اس کے
ہم پھر مہمان خصوصی بنے
مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ دوسری بار ڈسے جانے کے خواہش مند کو کوئی دوسرا سوراخ ڈھونڈنا چاہیے۔ خود کو مہمان خصوصی بنتے ہم نے ایک بار دیکھا تھا۔ دوسری بار دیکھنے کی ہوس تھی۔ اب ہم ہر روز بالوں میں کنگھا کرکے اور ٹائی
داخلے جاری ہیں
پرسوں ایک صاحب تشریف لائے، ہے رند سے زاہد کی ملاقات پرانی پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ چلا تو کوئلوں کی دلالی کرنے لگے۔ چونکہ صورت ان کی محاورے کے عین مصداق تھی، ہمارا خیال تھا اس کاروبار میں سرخ روہوں گے۔ لیکن
جنتری نئے سال کی
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج۔ یعنی بلبل بولتا تھا یا بولتی تھی تو لوگ جان لیتے تھے کہ بہار آگئی ہے۔ ہم نئے سال کی آمد کی فال جنتریوں سے لیتے ہیں۔ ابھی سال کا آغاز دور ہوتا ہے کہ بڑی بڑی مشہور عالم، مفید عالم جنتریاں دکانوں پر آن موجود ہوتی
ایک دعا
’’یا اللہ کھانے کو روٹی دے! پہننے کو کپڑا دے! رہنے کو مکان دے! عزت اور آسودگی کی زندگی دے!‘‘ ’’میاں یہ بھی کوئی مانگنے کی چیزیں ہیں؟ کچھ اور مانگا کر‘‘ بابا جی! آپ کیا مانگتے ہیں؟ ’’میں؟‘‘ میں یہ چیزیں نہیں مانگتا۔ میں
ہم مہمان خصوصی بنے
آج کل کراچی کے کالجوں اور اسکولوں میں مباحثوں اور یوموں کا موسم ہے۔ سکہ بند مہمان خصوصی کو دن میں دو دو درس گاہیں بھگتانی پڑ رہی ہیں۔ صبح کہیں ہے شام کہیں۔ ہمارے ایک بزرگ تو مدرسہ رشیدیہ حنفیہ میں ایلورا اور اجنتا کی تصویروں پر اظہار خیال کر آئے کیونکہ
تاریخ کے چند اوراق
تاریخ کے چند دَور راہوں میں پتھر جلسوں میں پتھر سینوں میں پتھر عقلوں پر پتھر آستانوں پر پتھر دیوانوں پر پتھر پتھّر ہی پتھر یہ زمانہ پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے۔ دیگیں ہی دیگیں چمچے ہی چمچے سکّے ہی سکّے پیسے ہی پیسے سونا ہی سونا چاندی ہی
بھینس
یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔ بھینس دودھ دیتی ہے لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا دودھ
کچھ اعداد و شمار کے بارے میں
ہمارا حساب ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ یوں تو اور بھی کئی چیزیں کمزور رہی ہیں۔ مثلاً مالی حالت، ایمان، لیکن ان کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ ادھر آج کی دنیا اعداد و شمار اور حساب کتاب کی دنیا ہے حتی کہ ہمارے دوست طارق عزیز بھی جو ہماری طرح نرے شاعر ہوا کرتے تھے،
ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ
پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانہ ہذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔ ناول اسلامی
رامائن اور مہابھارت
رامائن رام چندر جی کی کہانی ہے۔ یہ راجہ دسرتھ کے پرنس آف ویلز تھے۔ لیکن ان کی سوتیلی ماں کیکئی اپنے بیٹے بھرت کو راجا بنانا چاہتی تھی۔ اس کے بہکانے پر راجا دسرتھ نے رام چندر جی کو چودہ برس کے لیے گھر سے نکال دیا۔ ان کی رانی سیتا کو بھی۔ ان کے بھائی لچھمن
کچھ انڈوں کی طرفداری میں
دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقہ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا
نسخہ بھونکتے کتے سے بچنے کا!
اخبار میں بھونکتے کتے سے بچنے کا نسخہ شائع ہوا ہے۔ لکھا ہے، ’’اگر آدمی ساکت کھڑا ہو جائے۔ بازو اور ہاتھ نیچے کی طرف سیدھے کرلے اور دوسری طرف دیکھنے لگے تو بھونکتا ہوا کتا کچھ دیر کے بعد خاموش ہو جائے گا اور پھر وہاں سے چلاجائے گا۔‘‘ اخبار نے یہ
اشتہارات ’ضرورت نہیں ہے‘ کے
ایک بزرگ اپنے نوکر کو فہمائش کر رہے تھے کہ تم بالکل گھامڑ ہو۔ دیکھو میر صاحب کا نوکر ہے، اتنا دور اندیش کہ میر صاحب نے بازار سے بجلی کا بلب منگایا تو اس کے ساتھ ہی ایک بوتل مٹی کے تیل کی اور دو موم بتیاں بھی لے آیا کہ بلب فیوز ہو جائے تو لالٹین سے
سرکاری یوم اقبال
ہمارے عزیز دوست جمیل الدین عالی دوہوں والے، تماشا مرے آگے والے، نے اپنے ناطقہ کو سربگر بیاں کرتے ہوئے اخبار میں ایسا رقت انگیز مضمون لکھا ہے کہ جدھر جائیے خلقت زاروقطار رو رہی ہے۔ سارا شہر دیوار گریہ بنا ہوا ہے۔ لیاری کی جھگیاں بہہ گئی ہیں اور محرم
ڈگریاں بڑی نعمت ہیں
لاہور کے ایک اخبار میں ایک وکیل صاحب کے متعلق یہ خبر مشتہر ہوئی ہے کہ کوئی ظالم ان کا سرمایہ علم و فضل اور دولت صبر و قرار اور آلات کاروبار لوٹ لے گیا ہے۔ تفصیل مال مسروقہ کی یہ ہے ایک ڈگری بی۔ اے۔ کی ایک ایل ایل بی کی۔ ایک کیریکٹر سرٹیفیکٹ بدیں مضمون
بٹیر کی نہاری
گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوران میں جانا ہوا۔ بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘ بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘ ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی
چند سبق آموز کہانیاں
ایک تھی چڑیا ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانا۔ چڑا لایا چاول کا دانا۔ اس سے کھچڑی پکائی۔ دونوں نے پیٹ بھر کر کھائی۔ آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کھچڑی بھی بہت ہو جاتی ہے۔ چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا
چند اشتہار
پچھلے دنوں کے قومی ابتلا میں جس سے جو کچھ ہو سکا، اس نے دیا۔ کسی نے پیسے دیے، کسی نے کپڑے دیے، کسی نے مشورے دیے کہ اپنی جگہ ان کی بھی بڑی قیمت ہے۔ جس کو لکھنا آتا ہے ان میں سے کسی نے چیک لکھا، کسی نے تعویذ لکھا، کسی نے ہماری طرح کالم لکھا، یا حاجی
سوئی میں اونٹ کیسے ڈالا جائے
ہم قارئین کرام کے اصرار پر خانہ داری کے کچھ چٹکلے درج کرتے ہیں۔ امیدہے قارئین انہیں مفید پائیں گی اور ہمیں دعائے خیر سے یاد کریں گی۔ سوئی میں دھاگا ڈالنا یہ کام بہ ظاہر مشکل معلوم ہوگا لیکن اگر ذرا توجہ سے اس کی ترکیب کو ذہن نشین کرلیا جائے تو کوئی
خطبۂ صدارت حضرت ابن انشاء
پچھلے دنوں ایک کتاب چھپی ہے، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے۔‘‘ اس کے فاضل مصنف کا کیا عمدہ قول ہے کہ انسان کی صحیح قدر اس کے وطن سے باہر ہی ہوتی ہے جہاں اس کی اصلیت جاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سفر وسیلۃ الظفر کا مطلب بھی شاید یہی ہے۔ ان صاحب کاجب چین میں
رباعی سے رکابی تک
کیا مرد واقعی سست اور بے سلیقہ ہوتے ہیں؟ ہمارے اس سے اختلاف یا اتفاق رائے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ عمومی رائے یہی معلوم ہوتی ہے۔ اسی صفحے پر آپ ایک کارٹون دیکھیں گے۔ میاں نے لمبے ڈنڈے والے جھاڑو سے فرشوں کی صفائی کرنے کے بعد باورچی خانے میں بہت
ذکر کاہلی کا
ہمارا شمار ان لوگوں میں ہے جن کاذکر پطرس نے اپنے مضمون ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی۔‘‘ میں کیا ہے۔ اگر یہ مضمون ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا نہ ہوتا، اگر پطرس مرحوم کے نیاز بھی حاصل رہے ہوتے، تو یہی سمجھتے کہ انہوں نے یہ ہمارے بارے میں لکھا ہے۔ اٹھنا
چند غیر ضروری اعلانات
بس مسافروں کے لیے مژدہ کراچی میں مالک ایسوسی ایشن بڑے فخر اور مسرت سے اعلان کرتی ہے کہ آج سے شہر میں تمام بسوں کے کرائے دگنے کردیے گئے ہیں۔ امید ہے محب وطن حلقوں میں اس فیصلے کا عام طور پر خیر مقدم کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے بس مالکان کی آمدنی پر ہی
آپ سے ملیے
آپ سے ملیے۔ آپ کااسم شریف ہے حکیم محمد شریف، رسالہ شرافت کے ایڈیٹر ہیں۔ پہلے امرتسر میں شریف پورہ میں رہتے تھے۔ آج کل لالو کھیت سے آگے شریف آباد میں قیام ہے۔ معجون شرافت اور شرافت منجن سے کراچی کا کون شریف آدمی واقف نہ ہوگا۔ کسی کو شرف ملاقات حاصل
کچھ اور ٹکٹ کچھ اور امیدوار
ہم نے اس روز ریلوے کے ریٹائرڈ گارڈ میر دلدار علی سندیلوی کا ذکر کیا تھا جن کو صوبائی اسمبلی کے لیے کسی اور پارٹی کا ٹکٹ نہ ملا تو ریلوے کے ٹکٹ پر ہی کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ غالباً ریٹرن ٹکٹ ہوگا۔ جس میں فائدہ یہ ہے کہ آدمی اور کچھ نہیں تو اپنے گھر تو واپس