- کتاب فہرست 183917
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4294 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4829
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ابن کنول کے افسانے
آخری کوشش
جیل کی آہنی سلاخوں کے اندر رہتے ہوئے اسے پورا ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ اس کے بدن کا ایک ایک جوڑ درد سے کراہ رہا تھا۔ کون کون سی اذیتیں تھیں جو اسے نہ دی جا چکی تھیں۔ لیکن وہ پتھّر کا آدمی خاموش تھا۔ جیل کے حکام گرمی میں زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتوّں
تیسری دُنیا کے لوگ
رات قبر کے اندھیرے کی طرح تاریک اور خاموش تھی ۔ چہار طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ تھکے ہارے جسم زلفِ شب کی گھنی چھاؤں میں پناہ لے کر عالمِ خواب میں مست و سرشار تھے کہ اچانک چاروں سمتیں شفق کی طرح سرخ ہو گئیں ۔ رفتہ رفتہ وہ تمام روشنیاں نزدیک آتی
خانہ بدوش
گذشتہ ستر سال سے بلال کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ وہ صلاۃ اور فلاح کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ پہلی اذان کی آواز اس نے اس وقت سنی تھی جب ماں کے بدن سے الگ ہو کر باپ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ خدا کی وحدانیت، رسول کی
ایک گھر کی کہانی
وہ بالکل تنہا تھا۔ لیکن کچھ دن پہلے وہ تنہا نہیں تھا۔ اور اب وہ تنہائی کے ڈراونے جنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر اس جاندار سے پوچھتا جو اس جیسا تھا ۔ ’’ کیا شہر میں اب بھی انسانوں کا قتل ہو رہا ہے؟ کیا اب بھی شہر جل رہا ہے ؟‘‘ ’’ہاں‘‘ ایک
گرم سُوٹ
تکیہ پر نئے غلاف کی طرح وہ اپنے بدن پر نیا سوٹ چڑھا کر کمرے سے باہر آیا خوشی سے اس کی بانچھے کھلی جا رہی تھیں ۔ آج عرصۂ دراز کی آرزوئے دِلی عملی جامہ زیب تن کر کے اس کے رو برو آئی تھی ۔ اپنی بے انتہا مسرتوں کو اُچھالتے ہوئے اس نے رسوئی میں بیٹھی ہوئی
اپنی آگ اپنا گھر
جوان بیٹے کا جنازہ صحن میں رکھا ہوا تھا پورے گھر میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ ہر چہرے پر افسوس و ملال تھا۔ عورتیں رو رو کر اپنا سر پیٹ رہی تھیں۔ ہر آنکھ نم تھی لیکن زبیدہ بالکل خاموش تھی، جس کا جوان بیٹا موت کی وادی میں کفن اوڑھے سو رہا تھا۔ اُس کی آنکھ
ابن آدم
ہر روز کی طرح کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے بلب کے نیچے دو موٹی موٹی چھپکلیاں بار بار منہ کھول کر بے بس کیڑوں کی نگل رہی تھیں اور وہ دونوں بھی ہر روز کی طرح اپنے تھکے ہارے جسموں کو لے کر بے جان کرسیوں پر آن پڑے تھے۔ پھر ایک نے دوسرے سے سوال کیا: ’’تم
بند راستے
ہندوپاک کے راستے کھلتے ہی اسے ایسا لگا کہ اب تک وہ نظر بند تھا اور اسے آزاد کیا گیا ہو۔ اس نے سب سے پہلا کا م یہ کیا کہ ہندستان جانے کے لیے ویزا منظور کروایا اور بہت جلد اپنے گاؤں کی گلیوں کو نگاہوں میں بسا کر لاہور سے روانہ ہوا ۔ اس نے اپنے آنے کی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-