- کتاب فہرست 187374
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں41
ادب اطفال2043
ڈرامہ1015 تعلیم370 مضامين و خاكه1457 قصہ / داستان1632 صحت101 تاریخ3488طنز و مزاح732 صحافت215 زبان و ادب1923 خطوط808
طرز زندگی23 طب1009 تحریکات298 ناول4988 سیاسی367 مذہبیات4700 تحقیق و تنقید7225افسانہ3024 خاکے/ قلمی چہرے287 سماجی مسائل117 تصوف2243نصابی کتاب574 ترجمہ4505خواتین کی تحریریں6354-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1483
- دوہا51
- رزمیہ106
- شرح206
- گیت62
- غزل1276
- ہائیکو12
- حمد52
- مزاحیہ37
- انتخاب1631
- کہہ مکرنی7
- کلیات707
- ماہیہ19
- مجموعہ5203
- مرثیہ395
- مثنوی866
- مسدس58
- نعت590
- نظم1293
- دیگر77
- پہیلی16
- قصیدہ193
- قوالی18
- قطعہ70
- رباعی304
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت27
انتظار حسین کے مضامین
ادب اور عشق
ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن وجمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت وتاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جان عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق
ناول، حقیقت نگاری اور غالب
یہ درست ہے کہ اردو میں ناول کی داغ بیل ڈپٹی نذیر احمد نے ڈالی اور مختصر افسانے کے باوا آدم منشی پریم چند ہیں۔ پھر بھی میرا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ نئے اردو فکشن کی تاریخ غالب سے شروع ہونی چاہئے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادب میں غالب کی ذات
گمشدہ امیر خسرو
امیر خسرو اپنے زمانے میں ایک امیر خسرو تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک سے کئی بن گئے۔ جامع اور سالم شخصیتوں کے ساتھ مشکل یہی تو ہوتی ہے کہ تصور میں ان کا اکٹھا سمانا مشکل ہوتا ہے۔ اُدھر آدمی بہت پھیلا ہوا تھا۔ ادھر روز بروز نظر کمزور اور تصور محدود
نیا ادب اور پرانی کہانیاں
علی گڑھ میں کیلے کا ایک باغ تھا۔ طوائفوں کی رسم تھی کہ ہر شبِ عاشور کو اس باغ میں کیلے کا پتا توڑنے جاتی تھیں۔ ایک برس شہر میں فساد ہو گیا۔ باغ کے ہندو مالک نے لٹھ بند جاٹ بٹھا دیے کہ شب عاشور کو وہاں کوئی قدم نہ رکھے۔ اس پر وہ رسم جو طوائفوں کے لئے
علامتوں کا زوال
مشہور انگریز مؤرخ مسٹر گبن نے کہا ہے کہ دنیا میں دو بڑے پہلوان گزرے ہیں۔ رستم اور حضرت علی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ گبن نے واقعی یہ بات کہی ہے یا نہیں، اس کے راوی ہماری بستی کے ذاکر صاحب ہیں جو مجلس میں گرمی پیدا کرنے کے لئے گبن کا یہ قول سنایا کرتا تھے۔
لکھنا آج کے زمانے میں
میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر
اجتماعی تہذیب اور افسانہ
ایک روز کا ذکر ہے کہ لاہور کے آسمان پر ایک دودھیا دھاری کھنچتی دکھائی دی۔ غورسے دیکھا تو بہت بلندی پر ایک گول سی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔ یہ لمبی دودھیا دھاری اسی کی دم تھی۔ شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ اسٹپنک گزر رہا ہے، مگر دوسرے دن اخباروں میں ایک تردیدی
ادب کی الف، ب، ت
میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں
واپس کلاسیکیت کی طرف
غالب کو عام طور پر اردو کا سب سے مشکل شاعر سمجھا جاتا ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ناقابل فہم اور مبہم تصور کیے جاتے ہیں جو ادیبوں اور نقادوں کو گہرے تجزیاتی مطالعے پر مجبور کرتے ہیں۔ غالب کی زیادہ تر شرحیں ایسی ہیں گویا معما حل کیا جا رہا ہو۔ یہی سبب
سجاد ظہیر کا نظریۂ ادب
ہمارے بزرگ خط لکھتے ہوئے بالعموم اس فقرے پر اسے تمام کرتے تھے۔ برخوردار اِس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ اور اپنی خیریت و حالات تفصیل سے لکھ۔ خطوں میں لکھا جانے والا یہ رسمی فقرہ اس وقت جب میں سجاد ظہیر کی تحریریں پڑھ رہا ہوں بہت بامعنی نظر آ رہا ہے۔
فسادات کے افسانوں کا پروپیگنڈائی پہلو
فسادات کے افسانوں کے بارے میں سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ فسادات کے افسانے ہیں یا نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان افسانوں کا موضوع فسادات ہی ہیں لیکن دقت یہ آپڑتی ہے کہ ان میں فسادات کو محض قتل و غارت گری، آتش زدگی، اور عصمت دری کے واقعات سے عبارت
ادب، گھوڑے سے گفتگو
پاکستان کے بارے میں چیخوف نے ایک افسانہ لکھا ہے۔ اگر کسی دوست کو یہ یاد ہے کہ اس افسانے کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں تو وہ مجھے یہ سوچ کر معاف کر دے کہ اپنے بارے میں جو بات ہوتی ہے، وہ بار بار یاد آتی ہے۔ اس افسانے میں ایک کوچوان کا بیٹا مر گیا ہے۔
ڈیڑھ بات اپنے افسانے پر
میں پناہ مانگتا ہوں ہوں اپنے اس قاری سے، جس نے ’دن‘ پڑھا اور کہا کہ کہانی تشنہ ہے کہ تحسینہ اور ضمیر کا اختلاط تو ہوا ہی نہیں اور میں پناہ مانگتا ہوں اس قاری سے جس نے ’بستی‘ پڑھا، صابرہ کو دیکھا اور سوال اٹھایا کہ انتظار حسین کے یہاں عورت کیوں نظر نہیں
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں41
ادب اطفال2043
-
