- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
جہاں آرا بیگم کا تعارف
جہاں آرا بیگم مغل بادشاہ شاہ جہاں اور ممتاز محل کی دختر اور اورنگ زیب کی بڑی بہن ہیں۔ جہاں آرا بیگم کی پیدائش 1614ء کو آگرہ میں ہوئی ۔ اورنگ زیب نے اسے “صاحباۃالزمانی“ کا لقب دیا تھا۔ جب ممتاز محل کی وفات 1631ء میں ہوئی تو اس وقت جہاں آرا کی عمر 17 سال کی تھی۔ اسے مغلیہ سلطنت کی شاہزادی کہا جانے لگا۔اپنے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنے شفیق والد محترم شاہ جہاں بادشاہ کی بھی دیکھ بھال اس نے اپنے سر لی۔ ممتاز محل نے اپنے 14ویں بچے کی تولید کے وقت انتقال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ممتاز محل کے نجی زروزیور کی قیمت اس دور میں ایک کروڑ روپئے تھی۔ شاہ جہاں نے اسے دو حصوں میں تقصیم کیا۔ ایک حصہ جہاں آرا کو اور دوسرا حصہ بچوں میں تقسیم کیا۔ شاہ جہاں اکثر اپنی بیٹی جہاں آرا سے رائے مشورے لیتا تھا۔ انتظامی امور میں اکثر جہاں آرا کا دخل بھی ہوا کرتا تھا۔ اپنی عزیز بیٹی کو شاہ جہاں صاحبات الزمانی، پادشاہ بیگم، بیگم صاحب جیسے القاب سے پکارا کرتا تھا۔ جہاں آرا کو اتنا اختیار بھی تھا کہ وہ اکثر قصر آگرہ سے باہر بھی جایا کرتی تھی۔ 1644ء میں جہاں آرا کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر ایک حادثہ ہوا جس میں جہاں آرا کے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور وہ جھلس کر زخمی ہو گئیں۔ شاہ جہاں اس بات سے نہایت رنجیدہ ہوا اور انتظامی امور دوسروں کو سونپ کر اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت پر بھی گیا۔ جب جہاں آرا ٹھیک ہوئیں توشاہ جہاں نے اسے قیمتی ہیرے جواہرات اور زیورات تحفے میں دیا اور سورت بندرگاہ سے آنے والی آمدنی کو بھی اس نے تحفے میں پیش کیا۔ جہاں آرا نے بعد میں اجمیر شریف کی زیارت بھی کی، جو اس کے جد امجد شہنشاہ اکبر کا طور تھا۔ جہاں آرا ملا بدخشی کی مرید تھی۔ انہوں نے اسے طریقہ قادریہ میں 1641ء میں مرید کیا۔ ملا بدخشی جہاں آرا سے اتنا متاثر تھے کہ اپنے بعد اس سلسلے کی ذمہ داری جہاں آرا کو سونپنا چاہا مگر صوفی طریقہ نے یہ اجازت نہ دی جس کی وجہ سے وہ چپ رہ گئے۔ جہاں آرا نے خواجہ معین الدین چشتی کی سوانح لکھی جس کا نام “مونس الارواح“ رکھا۔ اس طرح اس نے اپنے پیر و مرشد ملا بدخشی کی بھی سوانح لکھی جس کا نام “رسالہِ صاحِبیہ“ ہے۔ جہاں آرا کی تصنیف معین الدین چشتی کی سوانح اس دور کا ایک بڑا ادبی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ خواجہ بزرگ کے انتقال کے چار سو سال بعد اُن کی سوانح لکھنا ایک کمال تھا۔ جہاں آرا نے اجمیر شریف کی زیارت کے موقع پر خود کو فقیرہ او ایک صوفی خاتون کہا۔ جہاں آرا یہ کہا کرتی تھی کہ وہ خود اور اپنے بھائی دارا شکوہ دونوں ہی تیموری خاندان کے وہ افراد ہیں جنہوں نے صوفی طریقہ اپنایا ہے۔ جہاں آرا نے صوفی طریقوں کی پاسبانی کی۔ باالخصوص اس نےصوفی ادب کی ترتیب میں کافی دلچسپی لی۔ اس نے کلاسیکی ادب اور صوفی ادب کے ترجمات میں کافی دلچسپی لی۔ اس نے 1681ء میں دہلی میں وفات پائی۔ جہاں آرا کی تدفین خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ کے قریب ہوئی۔ اس کے مزار پر کتبہ لکھا ہوا ہے جو ان کی سادہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-