Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kanhaiya Lal Kapoor's Photo'

کنہیا لال کپور

1910 - 1980 | موگا, انڈیا

معروف طنز و مزاح نگار، اپنی سلیس زبان اور سماجی ناہمواریوں پر گہرے طنز کے لیے جانے جاتے ہیں۔

معروف طنز و مزاح نگار، اپنی سلیس زبان اور سماجی ناہمواریوں پر گہرے طنز کے لیے جانے جاتے ہیں۔

کنہیا لال کپور کا تعارف

پیدائش : 27 Jun 1910 | فیصل آباد, پنجاب

وفات : 05 May 1980 | پونے, مہاراشٹر

LCCN :n89203680

کنہیا لال کپور ہمارے عہد کے بہت کامیاب طنزنگار و ظرافت نگار ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر بسیارنویسی کے باوجود ان کی تحریریں معیار سے گرنے نہیں پاتیں۔ سبب یہ کہ وہ پختہ فنی شعور کے مالک ہیں اور جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کا ادب کس طرح وجود میں آتا ہے۔

کنھیا لال کپور1910ء میں لائل پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لائل پور پنجاب کا ایک ضلع ہے اور اب پاکستان میں شامل ہے۔ یہیں ایک پرائمری اسکول میں تعلیم پائی۔ موگا سے انٹرمیجیٹ اور لاہور سے بی۔ اے۔ ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مختلف کالجوں میں لکچرار اور پرنسپل رہے۔ تقسیم ملک کے بعد فیروزپور اور موگا میں ملازمت کی۔ وہیں قیام رہا۔ 1980ء میں انتقال ہوا۔

ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ انگریزی ادب کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب سے انہیں شناسائی حاصل ہے۔ اس لیے وہ ان تمام تدابیر سے بخوبی واقف ہیں جن سے طنزوظرافت میں حسن اور اثر پیدا ہوتا ہے۔ ان کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔ فطرت انسانی سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں اس لیے انسان کی عالمگیر کمزوریوں کی بڑی کامیابی کے ساتھ گرفت کرتے ہیں اور ان کی تخلیقات زمان و مکاں یعنی وقت اور مقام سے اوپر اٹھ جاتی ہیں۔ ہر زمانے اور ہر مقام کے لوگ ان کی تصانیف سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ فلسفۂ قناعت کامریڈ شیخ چلی اور انکم ٹیکس والے اسی طرح کے مضامین ہیں۔

کنھیا لال کپور کے طنزمیں تیزی بھی ہے اور نفاست بھی۔ ان کا طنزیہ تیزدھار والے نشتر کی طرح بڑی صفائی سے عمل جراحی کرتا ہے۔ ان کا موضوع ادب ہے۔ اس لیے وہ عموماً ادبی موضوعات کو طنزوظرافت کا نشانہ بناتے ہیں۔ مثلاً چینی شاعری‘‘ اور ’’غالب جدید شعرا کی مجلس میں‘‘ معیاری مضامین ہیں۔ ان کے مضامین میں ادبیت نظر آتی ہے۔ زبان پر انہیں قدرت حاصل ہے۔ اس لیے صاف ستھری زبان لکھتے ہیں۔ تصنیف کے ابتدائی دور میں ان کی زبان زیادہ نکھری ہوئی نہیں تھی مگر رفتہ رفتہ زبان پر گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ آخری دور کے مضامین میں سادگی اور روانی زیادہ ہے۔ ان کا ذوق مزاح بہت شستہ ہے۔ وہ محض لفظی الٹ پھیر یا ناہموار زبان و بیان سے ظرافت پیدا نہیں کرتے بلکہ خیال و کردار کے وسیلے سے اسے ابھارتے ہیں۔

سنگ و خشت، شیشہ و تیشہ، چنگ و رباب، نوک نشتر، بال و پر، نرم گرم اور کامریڈ شیخ چلی ان کے مشہور مجموعے ہیں۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے