میکش اکبرآبادی کا تعارف
جناب میکشؔ کی ولادت مارچ/ 1902 عیسوی میں اکبرآباد (آگرہ) کےمیوہ کٹرہ میں ہوئی۔ ان کے مورث اعلیٰ ’سید ابراہیم قطب مدنی‘ جہانگیر کے عہد میں مدینہ منورہ سے ہندوستان تشریف لائے اور اکبرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ سید محمد علی شاہ نام اور میکشؔ تخلص تھا۔ قادری نیازی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے داداسید مظفر علی شاہ نے حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی کے صاحبزادے حضرت نظام الدین حسین کی بیعت کی اور ان کے خلیفہ ہوئے۔ ان کے والد سید اصغر علی شاہ ان کی کم سنی میں ہی وصال فرما گئے۔ آپ کی تعلیم آپ کی والدہ نے بخوبی نبھائی جو ایک با ہوش و صالحات قدیمہ کی زندہ یادگار ہونے کے علاوہ بزرگان خاندان کے علم و عمل سے بخوبی واقف تھیں۔ اپنے بیٹے کی تعلیم کے لیے شہر و بیرونجات سے بڑے بڑے لایق علما، فضلا جن میں مولوی عبد المجید سر فہرست ہیں ان تمام لوگوں کی علمی خدمات بیش قرار معاوضوں پر حاصل کر کے ابتدائی اور وسطی علوم طے کرائے۔ آپ کو مدرسہ عالیہ، آگرہ میں داخل کرایا جہاں سے آپ نے علوم ظاہری حاصل کی اور نصاب درس نظامیہ کے مطابق آپ نے منقولات کے ساتھ ساتھ جدید و قدیم معقولات کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ اپنی خاندانی روایت کے مطابق سجادہ نشین بھی ہوئے۔
میکشؔ اکبرآبادی کی شادی ان کے سترہ سال کی عمر میں حشمت علی صاحب اکبرآبادی کی صاحبزادی صدیقی بیگم سے ہوئی۔1937 میں صدیقی بیگم کا انتقال ہونے کے بعد انہوں نے عقد ثانی آصف جہاں سے کیا جو نواب مصطفیٰ صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ آصف جہاں میکشؔ اکبرآبادی کے خاندانی روایات کو اور ذمہ داریوں کو نہ سنبھال سکیں اور اپنے میکے میں رہنے لگیں لہٰذا انہوں نے آصف جہاں سے قطع تعلق کر لیا اس کے بعد آصف جہاں پاکستان چلی گئیں۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔میکشؔ نے آگرہ میں ہی1991 میں اپنے جسم کو خیر باد کہا اور داعی اجل کو لبیک کہا۔
میکش ؔاکبرآبادی جعفری نسب اور سنی الحنفی صوفی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے ذی علم بزرگوں میں ہوتا ہے۔ مگر پیشہ ور پیروں سے الگ سوچ رکھتے تھے۔
میکشؔ کو موسیقی کا ہمیشہ سے بہت شوق رہا ہے۔ ان کو بچپن سے ستار بجانے کا بہت شوق تھا جب انہیں کوئی غزل کہنی ہوتی وہ ستار لے کر بیٹھ جاتے اور ستار کی دھن پر فوراً غزل تیار کر لیتے۔ اس کے علاوہ ان کو علم منطق میں بھی دسترس تھا لہٰذا بچپن ہی سے بحث و مباحثہ کا بھی شوق تھا۔
ان کے عہد میں اردو غزل ایک نئے مقام کی طرف گامزن تھی میکشؔ کے ہم دور حسرت ؔموہانی، اصغرؔ گونڈوی، فانیؔ بدایونی، جگرؔ مرادآبادی اپنے اپنے منفرد لہجے اور پیرائے میں غزل کو مزون کر رہے تھے اسی وقت آگرہ میں میکشؔ خاموشی سے گیسوئے غزل کی آرائش و زیبائش میں مصروف تھے۔ انہوں نے وحدت الوجود، فنا و بقا، ترک و اختیار، ہستی و نیستی اور حقیقت و مجاز جیسے صوفیانہ نظریات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بڑے موثر انداز میں کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے تصوف جیسے خشک موضوع کو بھی اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے ذریعہ تغزل کے رنگ میں پیش کیا ہے اور جمالیاتی حسن کو بھی برقرار رکھا ہے۔
میکشؔ اکبرآبادی نے متعدد صوفیانہ تصنیف تخلیق کی ہیں ۔ جن میں انہوں نے اپنے افکار کو ایک شبیہ دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی چند تصنیفات حسب ذیل ہیں۔ نقد اقبال، نغمہ اور اسلام، مسائل تصوف، توحید اور شرک، میکدہ، حرف تمنا، حضرت غوث الاعظم، داستان شب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔