- کتاب فہرست 183922
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4294 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4829
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
مجنوں گورکھپوری کے مضامین
ادب اور ترقی
شاعر کی نوا ہوکہ مغنی کا نفس جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا اقبال کوئی نو دس سال کا عرصہ ہوا، طبیعیات کے ایک مشہور ماہر نے مادی دنیا کے متعلق ہمارے خیالات اور رجحانات میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو مجملاً یوں بیان کیا تھا، ’’جن چیزوں کو پہلے
میں کیوں لکھتا ہوں؟
غریبم و تو زبان دان من نہ غالب بہ بند پرسش حالم نمی تواں افتاد ’’میں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘ ’’سویرا‘‘ نے یہ سوال چھیڑا ہے اور اب تک کئی لکھنے والے اپنے لکھنے کی الٹی سیدھی تاویلیں کر چکے ہیں اوران میں کافی تعداد ایسوں کی ہے جنہوں نے بات کا بتنگڑ نہ
نظیر اکبرآبادی: ایک بار پھر
ابھی ایک مہربان دوست نے مارچ کے ’’جامعہ‘‘ کی طرف مجھے متوجہ کیا اور جناب سید اختر علی نے نگار کے نظیر نمبر پر جو فاضلانہ تبصرہ حوالہ قلم فرمایا ہے اس کو مجھے پڑھنا پڑا۔ فاضل تبصرہ نگار کی نظر التفات سالنامہ نگار کے تین اراکین پر خصوصیت کے ساتھ پڑی ہے
نئی اور پرانی قدریں
انگریزی کے مشہور نقاد ادیب میتھیوآرنلڈ نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اپنے دور کے انتشار، تذبذب اوربے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں، ایک تو مرچکی ہے اوردوسری اس قدر بے سکت ہے کہ کسی
غالب: انداز بیاں
نہیں گر سروبرگ ادراک معنی تماشائے نیرنگ صورت سلامت اب سے تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے کہ فن کاری (ART) کے لئے اردومیں ایک دوسرا مترادف لفظ استعمال ہوتا تھا یعنی ’’حسن کاری‘‘ آج اس لفظ کولوگ بھول چکے ہیں لیکن آج بھی اس کی روح فنکاری یاآرٹ کی ہرنئی
نظیر اکبرآبادی اور اردو شاعری میں واقعیت و جمہوریت کا آغاز
آج میں بچپن کی زندگی اوراس کے اصول و عقاید پر غور کرتا ہوں تو صرف ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور وہ یہ کہ بچپن میں ہم جو کچھ ہوتے ہیں وہ ہماری اصلی فطرت ہوتی ہے جس پر زمانہ کی رفتار اور تہذیب و مدنیت کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ سیکڑوں ہزاروں پردے پڑ جاتے
غالب: فکر و نظر
شعر غالب نہ بود وحی و نہ گوئیم ولی تو و یزدان نتواں گفت کہ الہامی ہست؟ غالب نے نہ جانے کس خیال کے تحت وحی اورالہام کے اصطلاحی فرق کودرمیان میں لاناضروری سمجھا۔ ہم اس بحث کی موشگافیوں کوماہروں کے لئے چھوڑتے ہوئے اتناضررکہیں گے کہ اگرزمین پروحی اترسکتی
نظم سے نثر تک
جو سوال میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس پر کم و بیش ایک چوتھائی صدی سے غور کر رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ پہلی بار ایک ذمہ دار شخص نے یہ آواز بلند کی تھی کہ غزل شاعری کی ایک ’’نیم وحشی‘‘ صنف ہے، جوآج تک رہ رہ کر گونج رہی ہے۔ حالی جو آزاد
غالب کا عہد اور غالب
شخصیتیں ادنی ہوں یااعلیٰ تاریخ کی مخلوق ہوتی ہیں، یعنی زمانہ کے کسی مخصوص دور کے مادی اورخارجی اسباب وعوامل جن میں اقتصادی حالات سماجی ہیئت قریب ترین ماحول کے موثرات سبھی شامل ہوتے ہیں، افراد کے کردار اورمزاج کا رخ متعین کرتے ہیں اوران کی شخصیتوں کی
دیوان غالب اور اردو غزل
(اس مضمون کے کچھ ابتدائی پیرے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نیشنل پروگرام کے تحت ۴ فروری ۶۰ء کو نشر کئے جا چکے ہیں) میر کے بعد اور اقبال سے پہلے غالب ہی ایک ایسی شخصیت ہے جس کو عہد آفریں کہا جا سکتا ہے۔ وہ میر اور اقبال دونوں سے زیادہ قوی اور مؤثر شخصیت
غزل اور عصر جدید
ایک مبصر کی رائے ہے کہ شاعری جدید دنیا کے لئے بہت کم اہمیت رکھتی ہے اور آج کل کی انسانیت کو شاعری کی کچھ زیادہ پروا نہیں ہے۔ اس کی تردید میں دستے کے دستے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جو اس وقت بھی دنیا کے ہر گوشے میں آئے دن رنگے جا رہے ہیں۔ اس سے انکار
ادب اور مقصد
حضرات! جس وقت آپ لوگوں نے اس انجمن کے صدر کے لئے میرا نام تجویز کیا تو پہلی بے اختیار تحریک تو میرے اندر یہ پیدا ہوئی کہ میں اپنا نام واپس لے لوں اور اپنی جگہ کسی ایسے شخص کا نام تجویز کروں جو تن و توش اور ہوش و گوش میں مجھ سے بہتر ہو اور ایسوں کی
تخلیق و تنقید
تنقید کیا ہے یا وہ کون سا مرکزی لازمی عنصر ہے جس کے بغیر تنقید تنقید نہیں ہو سکتی۔ اب سے ایک دو نسل پہلے یہ سوال کبھی اٹھایا نہیں گیا۔ اس لئے کہ اب تک فنکار اور نقاد کے درمیان کوئی محسوس فرق نہیں تھا۔ دونوں کا تصور ایک ساتھ ذہن میں آتا تھا۔ تخلیق اور
ادب اور زندگی
ادب کیا ہے؟ اس کا وجود دنیا میں کیوں ہوا؟ انسان کی زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے یا ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے؟ یہ اور اسی قسم کے بہت سے سوالات جو اسی قدر پرانے ہیں جس قدر کہ خود ادب۔ اور ارباب فکر ہر ملک اور ہر دور میں ان کے جواب دیتے آئے ہیں۔ اگر آج ہم
غالب اور ہم
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں عظیم شخصیتوں کی تین قسمی ہیں۔ کچھ لوگ توایسے ہوتے ہیں جو خود کوئی کارنمایاں انجا م نہیں دیتے لیکن جواپنی نسل اور اس کے توسط سے بعدکی نسلوں کے لئے موثرقوت ثابت ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے وجود سے
حسن اور فنکاری
فنکاری ایک فکریاتی حرکت (Ideological Activity) ہے جو انسان کے اجتماعی جذبات اور خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس اعتبار سے فنکاری اور انسان کے اجتماعی شعور کے دوسرے مظاہر کے درمیان کیا فرق ہے؟ فن کاری حقیقت کو ایک مخصوص تخیلی پیکر دے
مصحفی اور ان کی شاعری
اردو شاعری کی تاریخ میں مصحفیؔ کی ذات کئی اعتبار سے اہم اور قابلِ لحاظ ہے اور وہ ایک ایسی حیثیت کے مالک ہیں جس کے اندر ہم کو ایک عجیب تناقص اور ایک غیر معمولی تضاد نطر آتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے اندر ایک تصادم کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ تصادم مزاج اور
تاریخ اور تخلیق
انسان کے جملہ ثقافتی اکتسابات میں جو اس نے تاریک ترین زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اب تک حاصل کئے ہیں سب سے اہم، سب سے اعلیٰ اور افضل اور سب سے زیادہ قابل فخر وہ اکتسابات ہیں جن کو مجموعی طور پر فنون لطیفہ کہا جاتا ہے اور جن کی ابتدا اتنی ہی قدیم ہے جتنی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-