- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4031 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی272
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مجنوں گورکھپوری کے مضامین
میر اور ہم
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہےگا میر عبوری دور اور اس کا انتشار و اختلال انسانی تمدن کی تواریخ میں کوئی نیا سانحہ نہیں ہے۔ معاشرتی رستخیز، ہمار ی زندگی کے ارتقاء کا ادنی منظر رہا ہے۔ زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اس وقت
ادب اور زندگی
ادب کیا ہے؟ اس کا وجود دنیا میں کیوں ہوا؟ انسان کی زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے یا ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے؟ یہ اور اسی قسم کے بہت سے سوالات جو اسی قدر پرانے ہیں جس قدر کہ خود ادب۔ اور ارباب فکر ہر ملک اور ہر دور میں ان کے جواب دیتے آئے ہیں۔ اگر آج ہم
ادب اور ترقی
شاعر کی نوا ہوکہ مغنی کا نفس جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا اقبال کوئی نو دس سال کا عرصہ ہوا، طبیعیات کے ایک مشہور ماہر نے مادی دنیا کے متعلق ہمارے خیالات اور رجحانات میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو مجملاً یوں بیان کیا تھا، ’’جن چیزوں کو پہلے
غزل اور عصر جدید
ایک مبصر کی رائے ہے کہ شاعری جدید دنیا کے لئے بہت کم اہمیت رکھتی ہے اور آج کل کی انسانیت کو شاعری کی کچھ زیادہ پروا نہیں ہے۔ اس کی تردید میں دستے کے دستے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جو اس وقت بھی دنیا کے ہر گوشے میں آئے دن رنگے جا رہے ہیں۔ اس سے انکار
مصحفی اور ان کی شاعری
اردو شاعری کی تاریخ میں مصحفیؔ کی ذات کئی اعتبار سے اہم اور قابلِ لحاظ ہے اور وہ ایک ایسی حیثیت کے مالک ہیں جس کے اندر ہم کو ایک عجیب تناقص اور ایک غیر معمولی تضاد نطر آتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے اندر ایک تصادم کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ تصادم مزاج اور
حالی کا مرتبہ اردو ادب میں
تاریخ ادب میں حالی کی تین حیثیتیں ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ شاعر تھے اور غزل کے شاعر۔ میں یہ کچھ صرف اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان کی کلیات کا ایک خاصا جزو غزلیات پر مشتمل ہے، بلکہ اس لئے کہ ایک مخصوص قسم کا تغزل ان کی فطرت کا ایک اہم عنصر تھا اور یہ عنصر
میں کیوں لکھتا ہوں؟
غریبم و تو زبان دان من نہ غالب بہ بند پرسش حالم نمی تواں افتاد ’’میں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘ ’’سویرا‘‘ نے یہ سوال چھیڑا ہے اور اب تک کئی لکھنے والے اپنے لکھنے کی الٹی سیدھی تاویلیں کر چکے ہیں اوران میں کافی تعداد ایسوں کی ہے جنہوں نے بات کا بتنگڑ نہ
ادب اور مقصد
حضرات! جس وقت آپ لوگوں نے اس انجمن کے صدر کے لئے میرا نام تجویز کیا تو پہلی بے اختیار تحریک تو میرے اندر یہ پیدا ہوئی کہ میں اپنا نام واپس لے لوں اور اپنی جگہ کسی ایسے شخص کا نام تجویز کروں جو تن و توش اور ہوش و گوش میں مجھ سے بہتر ہو اور ایسوں کی
تاریخ اور تخلیق
انسان کے جملہ ثقافتی اکتسابات میں جو اس نے تاریک ترین زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اب تک حاصل کئے ہیں سب سے اہم، سب سے اعلیٰ اور افضل اور سب سے زیادہ قابل فخر وہ اکتسابات ہیں جن کو مجموعی طور پر فنون لطیفہ کہا جاتا ہے اور جن کی ابتدا اتنی ہی قدیم ہے جتنی
نظیر اکبرآبادی اور اردو شاعری میں واقعیت و جمہوریت کا آغاز
آج میں بچپن کی زندگی اوراس کے اصول و عقاید پر غور کرتا ہوں تو صرف ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور وہ یہ کہ بچپن میں ہم جو کچھ ہوتے ہیں وہ ہماری اصلی فطرت ہوتی ہے جس پر زمانہ کی رفتار اور تہذیب و مدنیت کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ سیکڑوں ہزاروں پردے پڑ جاتے
نظم سے نثر تک
جو سوال میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس پر کم و بیش ایک چوتھائی صدی سے غور کر رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ پہلی بار ایک ذمہ دار شخص نے یہ آواز بلند کی تھی کہ غزل شاعری کی ایک ’’نیم وحشی‘‘ صنف ہے، جوآج تک رہ رہ کر گونج رہی ہے۔ حالی جو آزاد
تخلیق و تنقید
تنقید کیا ہے یا وہ کون سا مرکزی لازمی عنصر ہے جس کے بغیر تنقید تنقید نہیں ہو سکتی۔ اب سے ایک دو نسل پہلے یہ سوال کبھی اٹھایا نہیں گیا۔ اس لئے کہ اب تک فنکار اور نقاد کے درمیان کوئی محسوس فرق نہیں تھا۔ دونوں کا تصور ایک ساتھ ذہن میں آتا تھا۔ تخلیق اور
نئی اور پرانی قدریں
انگریزی کے مشہور نقاد ادیب میتھیوآرنلڈ نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اپنے دور کے انتشار، تذبذب اوربے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں، ایک تو مرچکی ہے اوردوسری اس قدر بے سکت ہے کہ کسی
دیوان غالب اور اردو غزل
(اس مضمون کے کچھ ابتدائی پیرے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نیشنل پروگرام کے تحت ۴ فروری ۶۰ء کو نشر کئے جا چکے ہیں) میر کے بعد اور اقبال سے پہلے غالب ہی ایک ایسی شخصیت ہے جس کو عہد آفریں کہا جا سکتا ہے۔ وہ میر اور اقبال دونوں سے زیادہ قوی اور مؤثر شخصیت
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-