- کتاب فہرست 187236
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1947
طب894 تحریکات294 ناول4552 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ108
- شرح192
- گیت83
- غزل1138
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1559
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4954
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
مجنوں گورکھپوری کے مضامین
ادب اور زندگی
ادب کیا ہے؟ اس کا وجود دنیا میں کیوں ہوا؟ انسان کی زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے یا ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے؟ یہ اور اسی قسم کے بہت سے سوالات جو اسی قدر پرانے ہیں جس قدر کہ خود ادب۔ اور ارباب فکر ہر ملک اور ہر دور میں ان کے جواب دیتے آئے ہیں۔ اگر آج ہم
مصحفی اور ان کی شاعری
اردو شاعری کی تاریخ میں مصحفیؔ کی ذات کئی اعتبار سے اہم اور قابلِ لحاظ ہے اور وہ ایک ایسی حیثیت کے مالک ہیں جس کے اندر ہم کو ایک عجیب تناقص اور ایک غیر معمولی تضاد نطر آتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے اندر ایک تصادم کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ تصادم مزاج اور
میر اور ہم
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہےگا میر عبوری دور اور اس کا انتشار و اختلال انسانی تمدن کی تواریخ میں کوئی نیا سانحہ نہیں ہے۔ معاشرتی رستخیز، ہمار ی زندگی کے ارتقاء کا ادنی منظر رہا ہے۔ زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اس وقت
حالی کا مرتبہ اردو ادب میں
تاریخ ادب میں حالی کی تین حیثیتیں ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ شاعر تھے اور غزل کے شاعر۔ میں یہ کچھ صرف اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان کی کلیات کا ایک خاصا جزو غزلیات پر مشتمل ہے، بلکہ اس لئے کہ ایک مخصوص قسم کا تغزل ان کی فطرت کا ایک اہم عنصر تھا اور یہ عنصر
تخلیق و تنقید
تنقید کیا ہے یا وہ کون سا مرکزی لازمی عنصر ہے جس کے بغیر تنقید تنقید نہیں ہو سکتی۔ اب سے ایک دو نسل پہلے یہ سوال کبھی اٹھایا نہیں گیا۔ اس لئے کہ اب تک فنکار اور نقاد کے درمیان کوئی محسوس فرق نہیں تھا۔ دونوں کا تصور ایک ساتھ ذہن میں آتا تھا۔ تخلیق اور
نظیر اکبرآبادی اور اردو شاعری میں واقعیت و جمہوریت کا آغاز
آج میں بچپن کی زندگی اوراس کے اصول و عقاید پر غور کرتا ہوں تو صرف ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور وہ یہ کہ بچپن میں ہم جو کچھ ہوتے ہیں وہ ہماری اصلی فطرت ہوتی ہے جس پر زمانہ کی رفتار اور تہذیب و مدنیت کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ سیکڑوں ہزاروں پردے پڑ جاتے
ادب اور مقصد
حضرات! جس وقت آپ لوگوں نے اس انجمن کے صدر کے لئے میرا نام تجویز کیا تو پہلی بے اختیار تحریک تو میرے اندر یہ پیدا ہوئی کہ میں اپنا نام واپس لے لوں اور اپنی جگہ کسی ایسے شخص کا نام تجویز کروں جو تن و توش اور ہوش و گوش میں مجھ سے بہتر ہو اور ایسوں کی
نئی اور پرانی قدریں
انگریزی کے مشہور نقاد ادیب میتھیوآرنلڈ نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اپنے دور کے انتشار، تذبذب اوربے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں، ایک تو مرچکی ہے اوردوسری اس قدر بے سکت ہے کہ کسی
دیوان غالب اور اردو غزل
(اس مضمون کے کچھ ابتدائی پیرے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نیشنل پروگرام کے تحت ۴ فروری ۶۰ء کو نشر کئے جا چکے ہیں) میر کے بعد اور اقبال سے پہلے غالب ہی ایک ایسی شخصیت ہے جس کو عہد آفریں کہا جا سکتا ہے۔ وہ میر اور اقبال دونوں سے زیادہ قوی اور مؤثر شخصیت
نظم سے نثر تک
جو سوال میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس پر کم و بیش ایک چوتھائی صدی سے غور کر رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ پہلی بار ایک ذمہ دار شخص نے یہ آواز بلند کی تھی کہ غزل شاعری کی ایک ’’نیم وحشی‘‘ صنف ہے، جوآج تک رہ رہ کر گونج رہی ہے۔ حالی جو آزاد
ادب اور ترقی
شاعر کی نوا ہوکہ مغنی کا نفس جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا اقبال کوئی نو دس سال کا عرصہ ہوا، طبیعیات کے ایک مشہور ماہر نے مادی دنیا کے متعلق ہمارے خیالات اور رجحانات میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو مجملاً یوں بیان کیا تھا، ’’جن چیزوں کو پہلے
غزل اور عصر جدید
ایک مبصر کی رائے ہے کہ شاعری جدید دنیا کے لئے بہت کم اہمیت رکھتی ہے اور آج کل کی انسانیت کو شاعری کی کچھ زیادہ پروا نہیں ہے۔ اس کی تردید میں دستے کے دستے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جو اس وقت بھی دنیا کے ہر گوشے میں آئے دن رنگے جا رہے ہیں۔ اس سے انکار
تاریخ اور تخلیق
انسان کے جملہ ثقافتی اکتسابات میں جو اس نے تاریک ترین زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اب تک حاصل کئے ہیں سب سے اہم، سب سے اعلیٰ اور افضل اور سب سے زیادہ قابل فخر وہ اکتسابات ہیں جن کو مجموعی طور پر فنون لطیفہ کہا جاتا ہے اور جن کی ابتدا اتنی ہی قدیم ہے جتنی
میں کیوں لکھتا ہوں؟
غریبم و تو زبان دان من نہ غالب بہ بند پرسش حالم نمی تواں افتاد ’’میں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘ ’’سویرا‘‘ نے یہ سوال چھیڑا ہے اور اب تک کئی لکھنے والے اپنے لکھنے کی الٹی سیدھی تاویلیں کر چکے ہیں اوران میں کافی تعداد ایسوں کی ہے جنہوں نے بات کا بتنگڑ نہ
حسن اور فنکاری
فنکاری ایک فکریاتی حرکت (Ideological Activity) ہے جو انسان کے اجتماعی جذبات اور خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس اعتبار سے فنکاری اور انسان کے اجتماعی شعور کے دوسرے مظاہر کے درمیان کیا فرق ہے؟ فن کاری حقیقت کو ایک مخصوص تخیلی پیکر دے
نظیر اکبرآبادی: ایک بار پھر
ابھی ایک مہربان دوست نے مارچ کے ’’جامعہ‘‘ کی طرف مجھے متوجہ کیا اور جناب سید اختر علی نے نگار کے نظیر نمبر پر جو فاضلانہ تبصرہ حوالہ قلم فرمایا ہے اس کو مجھے پڑھنا پڑا۔ فاضل تبصرہ نگار کی نظر التفات سالنامہ نگار کے تین اراکین پر خصوصیت کے ساتھ پڑی ہے
غالب اور ہم
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں عظیم شخصیتوں کی تین قسمی ہیں۔ کچھ لوگ توایسے ہوتے ہیں جو خود کوئی کارنمایاں انجا م نہیں دیتے لیکن جواپنی نسل اور اس کے توسط سے بعدکی نسلوں کے لئے موثرقوت ثابت ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے وجود سے
غالب: انداز بیاں
نہیں گر سروبرگ ادراک معنی تماشائے نیرنگ صورت سلامت اب سے تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے کہ فن کاری (ART) کے لئے اردومیں ایک دوسرا مترادف لفظ استعمال ہوتا تھا یعنی ’’حسن کاری‘‘ آج اس لفظ کولوگ بھول چکے ہیں لیکن آج بھی اس کی روح فنکاری یاآرٹ کی ہرنئی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1947
-