- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
منشایاد کے افسانے
وقت سمندر
قلعہ نما عالی شان عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی میرے قدم رک جاتے ہیں۔ میں اس منظر کی تاب نہیں لا سکتا اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں مگر پھر آنکھیں کھولتا ہوں تو کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون سا وقت اور مقام ہے۔ دن ہے نہ
تماشا
اندھیرے کا طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ سورج طلوع ہونے تک دریا کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ کنارے پر جگہ جگہ ادھ کھائی اور مری ہوئی مچھلیاں بکھری پڑی ہیں۔ چھوٹا کہتا ہے، ’’یہ لدھروں کی کارستانی لگتی ہے ابا۔‘‘ ’’ہاں پتر۔‘‘ بڑا کہتا ہے، ’’یہ ایسا ہی کرتے
ماس اور مٹی
سب سے پہلے حمد اس رب کی جس کی قدرتوں کا کچھ شمار نہیں۔ اس نے لاکھوں کروڑوں دنیائیں، کہکشائیں اور چاند سورج پیدا کئے۔ اس نے دس لاکھ میل قطر کا سورج بنایا اور اسے کائنات میں ایک نقطے کی حیثیت بخشی۔ اس نے اربوں کھربوں ایسے ستارے بنائے جن میں سے بعض
دیوار گریہ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی خالہ سے بہت محبت کرتا ہے، اس کی خالہ بھی اسے بہت چاہتی اور مانتی ہے۔ مگر جب وہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر آیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کے لیے شہر میں ہی بس گیا تو اسے اپنی خالہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملنے لگیں۔ اسے پتہ چلا کہ خالہ اکبر ماچھی سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سارا گاؤں اس شادی کے خلاف ہے۔ گاؤں کے کچھ لوگ شہر اس سے ملنے جاتے ہیں اور اسے گاؤں آکر خالہ کو سمجھانے کے لیے کہتے ہیں۔ خالہ جب اسے حقیقت سے روبرو کراتی ہے تو وہ حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔
آسیب
افسانہ ایک ایسے خاندان اور افراد خانہ کی روداد بیان کرتا ہے جہاں سے یکبارگی گھر کی چیزیں، پیسے غائب ہونے شروع ہو جاتے ہیں، ساتھ ہی کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ ان واقعات کو لے کر پہلے گھر والے ایک دوسرے کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے مگر جب ان واقعات میں شدت آگئی تو ان کا شک یقین میں بدل گیا کہ گھر میں کوئی جنات وغیرہ ہے۔ انھوں نے اس کے لیے پیر فقیر دعا تعویذ ہر ممکن کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر میں جب اس حقیقت کے بارے میں پتہ چلا تو انھیں یقین نہیں آیا کہ یہ حرکت وہ شخص کر سکتا ہے جسکے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
آدم بو
یہ ایک ایسی سماجی کہانی ہے جس میں گاوں کی مسجد کے امام مولوی اللاہ رکھا شروع میں بہت پرہیزگار اور دیندار ہوتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی پہلے کے اماموں کی طرح لوگوں سے نذرانے اور شکرانے لینے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا رسوخ بھی بڑھ جاتا ہے۔ پھر ایک دن پڑوس کی مسجد میں ایک نوجوان امام آتا ہے اور اللاہ رکھا اس امام کو چنوتی دینے لگتا ہے۔
پہلی بات
منشا یاد کے یہ پچپن افسانے، عین اس ترتیب میں ہے، جس طرح کہ میرے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک پر محفوظ تھے۔ منشا یاد نے یہ افسانے مختلف اوقات میں مجھے ای میل کیے۔ اپنی حیات کے آخری برسوں میں وہ اپنے افسانوں کو نئے سرے سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ اشاعتی اداروں سے
پانی میں گھرا ہوا پانی
چکنی مٹی سے گھوڑے بیل اور بندر بناتے بناتے اس نے ایک روز آدمی بنایا اور اسے سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیا۔۔۔ سخر دوپہر تھی، چلچلاتی دھوپ کے شعلے ویران اور کلر زدہ زمین پر جگہ جگہ رقص کر رہے تھے۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ چرند پرند پناہ گاہوں میں
چاہ در چاہ
یہ یادوں پر مبنی افسانہ ہے۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ اسلام آباد سے بیجنگ جا رہا ہے۔ فلائٹ میں سب سو رہے ہیں لیکن اسے نیند نہیں آرہی ہے۔ حالانکہ اسے ٹرین، بس، ٹیکسی سب جگہ نیند آجاتی ہے لیکن فلائٹ میں نیند نہیں آتی۔ جاگتا ہوا وہ باہر کے مناظر دیکھتا ہے اور آنے والے کل کے خواب بھی۔ فلائٹ ایک جگہ رکتی ہے تو وہاں وہ جمیلہ کو دیکھتا ہے۔ جمیلہ کسی زمانے میں اس سے محبت کرتی تھی، لیکن وہ اسکی محبت کو اپنا نہیں سکا۔
ننگا پیڑ
وہ اپنے زمانے کے مانے ہوئے حکیم تھے ان کا دور دور تک شہرہ تھا اور ان کے مطب کے سامنے ہر وقت مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف دیسی طب کی بہت سی کتابیں پڑھی تھیں بلکہ ان کی نظر طبی میدان میں ہونے والے نئے عالمی تجربات اور تحقیق پر بھی خاصی
بند مٹھی میں جگنو
افسانہ ایک ایسی لڑکی کے داستان کو بیان کرتا ہے جو زندگی کی تنہائی سے بیزار ہو گئی ہے۔ یکبارگی اسے پڑوس میں عورتوں کے لڑنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ اسے دیکھنے چھت پر چلی جاتی ہے۔ اس جھگڑے کو دیکھ کر جب وہ چھت سے اترتی ہے تو اسے زندگی بند مٹھی میں جگنو کی طرح نظر آنے لگتی ہے۔
جہاد
کہانی جہاد روکنے کے ایک حکم کے گرد گھومتی ہے جو وائرلیس سے موصول ہوتا ہے۔ جنرل اپنے کمانڈر سے کہتا ہے کہ جو لوگ جہاد کے لیے گیے ہیں انھیں واپس بلا لو۔ کمانڈر کہتا ہے لوگ تو نیچے جا چکے ہیں اور اپنی منزل کے قریب ہیں۔ جنرل پھر اصرار کرتا ہے کہ انھیں واپس بلا لو کیونکہ یہ اوپر کا حکم ہے۔ کمانڈر پوچھتا ہے کیا وحی کے ذریعے حکم ملا ہے، جنرل کہتا ہے، نہیں، وائرلیس کے ذریعے۔
پکی سڑک
یہ افسانہ سماجی تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔ اسے جس تانگے سے گاؤں کے بس اڈے جانا تھا، شام کو اطلاع ملی کہ اسے گاؤں کے چودھری نے اپنے لیے بک کر لیا ہے۔ اس پر اسے بہت غصہ آتا ہے اور تانگے والے کو ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالتی ہے۔ تانگے والا کسی بہانے سے چودھری کو منع کر دیتا ہے۔ اگلے دن تانگے میں جاتے ہوئے وہ دیکھتی ہے کہ چودھری اپنے گھوڑے پر سوار ہے اور ایک نوکر اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ وہ اس نوکر کو اپنے تانگے میں جگہ دے دیتی ہے۔
خواب در خواب
’’اور تم تین قسم کے ہو جاؤ گے۔‘‘ سو جو داہنے والے کیسے اچھے ہیں اور جو بائیں والے ہیں کیسے برے ہیں۔ اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ تو اعلیٰ درجے کے ہیں۔ اور قرب رکھنے والے ہیں باغوں میں نعمت کے۔ ان کا ایک بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور
کھلی آنکھیں
اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ مر گیا ہے یا ابھی نہیں مرا۔ تھوڑا بہت مر کر تو اس نے اپنی زندگی میں کئی بار دیکھا تھا کیا پتہ آج وہ بہت زیادہ مر گیا ہو مگر کیوں اور کیسے۔؟ اسے کوئی بات یاد نہیں آ رہی تھی۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت
تیرھواں کھمبا
گارڈ نے وسل دے دیا تھا اور سبز جھنڈی لہرا دی تھی، جب ایک نوبیاہتا جوڑا اس کے سامنے کی سیٹوں پر آ کر بیٹھ گیا اسے ایسا لگا جیسے وہ آرام دہ سیٹ پر نہیں بیٹھا تپی ہوئی ریل کی پٹڑی پر اوندھے منہ پڑا ہے۔ لڑکی اسے دیکھ کر یوں ہکا بکا رہ گئی جیسے وہ راولپنڈی
کاشی
اس کا نام کاشی ہے اور وہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔ یوں تو ہر باپ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے مگر میں کاشی سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہی کہ ڈھلتی عمر کی اولاد ویسے ہی زیادہ عزیز ہوتی ہے شاید آدمی اس کے مستقبل کی متوقع
الہام
دوپہر کے کھانے میں جب اتنا کم وقت رہ گیا کہ گاؤں سے کوئی سندیسہ شہر نہ پہنچ سکے تو چودھری رمضان نے اپنے گھر کے کشادہ صحن میں کھڑے ہو کر منادی کرنے کے سے انداز میں اطلاع دی۔ ’’فوجی آ رہے ہیں۔‘‘ ’’کب؟‘‘ ’’آج۔‘‘ ’’آج؟‘‘ ’’ہاں دوپہر کو۔۔۔
باگھ بگھیلی رات
یہ ایک رومانی افسانہ ہے جو خود نوشت کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی رومانی کہانی ہے جس میں محبت تو ہے لیکن اس کا اظہار نہیں ہے۔ وہ مشرق اور مغرب سے بچنے کی خاطر ایک رات اس کے گھر چھپنے آتی ہے، اس کا ماموں زاد اس سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اسے پسند نہیں کرتا ہے۔ وہاں دوران قیام وہ ہر روز اپنے بے نام عاشق کے نام خط لکھواتی ہے اور پھر چالیس روز بعد جاتے ہوئے وہ ان بے نام خطوط کی پوٹلی اسی کے ہاتھوں میں تھما جاتی ہے۔
بڑا سوال
یہ دنیا کے حالات سے تنگ آچکے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے ذہن میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ان خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اسے سننا نہیں چاہتا ہے۔ آخر وہ اپنے خیالات کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور اس کے بعد اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ شہر میں در بدر مارا پھرتا ہے، پاگلوں جیسا۔
اوور ٹائم
یہ ایک لور میڈل کلاس طبقے کی کہانی ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دفتر میں اوور ٹائم کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ یہ آفس کے ایک ایسے بابو کی کہانی ہے جس نے دفتر میں اپنی ترقی کے لیے جنرل منیجر صاحب کو درخواست دی ہوئی ہے۔ ایک دن دفتر میں اطلاع ملتی ہے کہ جی ایم صاحب کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ تعزیت کے بہانے شاید جی ایم صاحب سے اس کا سامنا ہو جائے اور اس رعایت سے اس کا کام بن جائے۔ یہ سوچتا ہوا وہ جی ایم صاحب کے گھر جاتا ہے لیکن وہاں اور اس کے بعد قبرستان میں جن حالات کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے اس کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔
ہاری ہوئی جیت
یہ افسانہ ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنی بیٹی کی شادی کی تاریخ طے کرنے اس کے سسرال جاتا ہے۔ شادی کی تاریخ طے کر وہ واپس ٹرین سے آرہا ہوتا ہے کہ اس ٹرین میں آگ لگ جاتی ہے۔ جب اسے ہوش آتا ہے تو وہ خود کو ایک ہسپتال میں پاتا ہے۔ سرکار کی طرف سے مہلوکین اور زخمیوں کے لیے معاوضہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ معاوضے میں اتنی ہی رقم کا اعلان کیا گیا ہے جتنی اسکی بیٹی کے سسرال والوں نے جہیز میں مطالبہ کیا تھا۔
دام شنیدن: ڈنگر بولی
یہ ایک خودنوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں ایک گوشت خور شخص کس طرح گوشت خوری ترک کر سبزی خور بن جاتا ہے، خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ لوگ اس پر شک کرنے لگتے ہیں کہ اس نے اپنا عقیدہ بدل دیا ہے، کیا گوشت خوری ترک کر دینے سے عقیدہ بدل جاتا ہے؟ افسانے میں ایک بنیادی سوال اٹھایا گیا ہے۔ حقیقت ہے وہ خلوص، محبت، پیار جو کسی جانور سے بھی ہو جاتا ہے اور بعض اوقات انسان اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوتا ہے۔
بچھڑے ہوئے ہاتھ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسکا ہاتھ ،گردن اور جسم کا ہر حصہ الگ الگ ہو گیا ہے۔ بغیر گردن کا اسکا جسم قبر میں پڑا ہے اور وہ اپنے ہاتھوں کو تلاش کرتا پھر رہا ہے جن سے اسے بے حد محبت ہے۔ انھیں ہاتھوں سے اس کی ڈھیروں یادیں وابستہ ہیں، اسلیے وہ ان کے لیے پریشان ہے۔
ٹائم از اوور
کیا کہا کتنے برس؟ برس نہیں دن ہوں گے ! آپ کو غلطی لگی ہے سر!! ابھی ابھی تو میں پنگھوڑے میں لیٹا منہ سے بوتل لگائے بڑے مزے سے دودھ پی رہا تھا۔ اور وہ عورت جس کے بطن سے میں نے جنم لیا ابھی ابھی یہاں تھی۔ آپ میری بات پر یقین کیجئے۔ میں
خلا اندر خلا
اس کے سمانے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر بڑی باتیں لکھی پڑی ہیں۔ جونہی شیشے کی دیوار کے اس پار بیٹھا ہوا شخص اشارہ کرتا ہے وہ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ مگر آج سے اپنی آواز بدلی بدلی معلوم ہوتی ہے۔ شاید بھی اس کا وہم ہو۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کی آواز
زوال کے اسباب
کھدائی کا کام برابر جاری ہے۔ اور نت نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ اس لئے ماہرین کسی حتمی نتیجے پر پہنچے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ مثلاً پہلے ان کاخیال تھا کہ وہ غذا کی قلت کا شکار ہو گئے تھے لیکن جب مزید کھدائی کے بعد اناج جسے بھرے ہوئے گودام
نظر آ لباس مجاز میں
شروع شروع میں مجھے شبہ تھا کہ اس کی موت حادثاتی نہیں سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی اور اس سازش میں پرائے ہی نہیں اس کے اپنے بھی شامل تھے۔ اگرچہ وہ کوشش بسیار کے باوجود میرے بارے میں پتہ نہ چلا سکے مگر انہیں کسی طرح یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ان
غروب ہوتی صبح
عجیب دروغ بھری صبح طلوع ہوئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا وہ جاگ گیا ہے یا ابھی تک سو رہا ہے۔ اگر وہ سو رہا ہے تو سامنے والی خالی کھڑکی اسے کیسے نظر آ رہی ہے اور اگر وہ جاگ رہا ہے تو اسے اپنے خراٹوں کی آواز کیسے سنائی دے رہی ہے۔ ان خراٹوں کے ساتھ ساتھ اسے
کالک
کچھ عرصہ ہوا میں نیک ہیں پڑھا کہ جس طرح ہنسنا اور مسکرانا صحت کے لئے مفید ہوتا ہے اسی طرح کبھی کبھی رو لینا بھی دل دل و دماغ اور روح کی صحت کے لئے ضروری ہے خواہ اپنے کسی جسمانی، روحانی یا ذاتی دکھ پر رویا جائے یا کوئی ناول پڑھتے، فلم دیکھتے یا کوئی
دیدۂ یعقوب
بیٹا اپنی آمد کے متعلق بتا رہا تھا مگر مجھے اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کس طرح آئے۔۔۔ پیاسی زمین کو اس سے کیا کہ بادل مشرق سے آئے یا مغرب سے؟ اسے تو بارش چاہیے۔ میرے لیے وہی فضائی کمپنی سب سے اچھی تھی جو اسے گھر لے آئے۔ اگرچہ ساتویں آٹھویں روز
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-