میر خلیق کا تعارف
ہماری فکر کی تعمیر میں جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں نسل، وراثت اور ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ نسل سے جسمانی ساخت اور نقوش کا تعین ہوتا ہے اور وراثت میں مزاج اور ذہنی صلاحیتیں نسلاً بعد نسلاً منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ عصر حاضر کی دریافت کے مطابق صفات بردار جینس والدین سے بچوں میں آجاتی ہیں لیکن فطرت کے اصول کے لحاظ سے کچھ صفات پیش پیش اور ذی اثر ہوتی ہیں اور کچھ پس ماندہ اور غیر موثر یا مجہول رہتی ہیں۔ شروع ہی سے بچوں میں ان ڈی اثر صفات کا اظہار ہوتا ہے جو اگر ماحول سازگار ہو تو ترقی کر جاتی ہیں اور بچے کی شخصیت کے ایک خاص میلان کا تعین کرتی ہیں گویا پوت کے پاؤں پالنے ہی میں معلوم ہوجاتے ہیں کہ وہ کس سمت چلے گا۔ ایسی صفات عموماً دو یا تین نسلوں سے زیادہ منتقل نہیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات کے نفوذ کا عمل عدوی اضافے کے سبب زیادہ پھیلاؤ اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً اگر کسی خاندان میں ایک فکری یا فنی صلاحیت جیسے شاعری یا موسیقی دو تین پشتوں سے زیادہ سلسلہ وار سات یا آٹھ پشتوں تک چلتی رہے تو یہ انسانی برداری میں توارث صفات کا ایک غیر معمولی واقعہ سمجھا جائے گا۔
اردو شعراء میں میر انیس کا خاندان ان نادرالوجود صفات سے متصف ہے کہ مسلسل آٹھ پشتوں تک اس میں ایسی اعلیٰ درجہ کی شاعری جاری رہی جس کو زبان اردو میں سند کا درجہ حاصل ہے۔
میرضاحکؔ کے بیٹے میر حسنؔ تھے ان کے فرزند میر خلیقؔ تھے۔ میر خلیقؔ کے بعد بھی شعر گوئی اور مرثیہ نگاری کا سلسلہ چارپشتوں تک چلتا رہا۔ ان کے بیٹے میر انیسؔ اور ان کے فرزند میر نفیسؔ، ان کے بیٹے عروجؔ اور پھر ان کے صاحبزادے میرؔ فائز مرثیہ نگار اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ کوئی اکتسابی فن بھی کسی خاندان میں کئی پشتوں تک نہیں جاری رہتا۔ یہ صرف اسی خاندان کے لیے مخصوص ہے کہ شاعری کا وجدانی فن آٹھ پشتوں تک چلتا رہا یعنی ڈھائی صدی سے کچھ زیادہ عرصہ تک۔ یہ ایرانی النسل موسوی سادات کا خاندان ہے جو شہر ہرات (افغانستان) سے شاہ جہاں بادشاہ کے عہد میں دہلی آ کر آباد ہوا تھا۔ اس زمانے میں دہلی کا مغل دربار علم و ادب کا مرکز تھا۔ اس خاندان کے ایک فرد میر امامی تھے جو انتہائی لائق وفائق اور بے مثل فقیہہ تھے اور شعروسخن سے بھی ذوق رکھتے تھے۔ بادشاہ نے سرفرازی اور قدردانی کی اور سہ ہزاری منصب عطا کیا۔ چار پشتوں یہ خاندان دہلی میں معزز و ممتاز زندگی بسر کرتا رہا۔ جب سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہوا تو اہل فن کی معاشی پریشانیاں بڑھنے لگیں۔ شرفا اور صاحب کمال لوگوں نے دہلی کی رہائش ترک کی اور اودھ کا رخ کیا۔ میرامامی موسوی کے پرپوتے میر غلام حسین ضاحکؔ بھی اپنے بڑے بیٹے میرحسن کو ساتھ لے کر اودھ کی راجدھانی فیض آباد آ گئے۔ فیض آباد میں اودھ سرکار نے ایک محاورات و ضرب الامثال کی تدوین کا دفتر قائم کیا تھا۔ میر حسنؔ اس کے میر منشی مقرر کئے گئے۔ ان کا قیام فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی میں تھا جہاں آج کل ’’انیس و چکبست لائبریری‘‘ قائم ہے۔
میر مستحسن خلیقؔ، میر غلام حسن المتخلص بہ میر حسنؔ کے منجھلے بیٹے تھے۔ حسب رواج ان کی تعلیم و تربیت گھر ہی پر ہوئی تھی۔ گر کی زبان محاورے روز مرہ اور پاکیزگی میں سند سمجھی جاتی تھی۔ شیخ امام بخش ناسخؔ بھی اپنے شاگردوں کو یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ اگر زبان سیکھنا ہو تو خلیقؔ کے ہاں جایا کرو۔ تذکرہ جات میں آیا ہے کہ سولہ برس کی عمر سے طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ ضروری تعلیم فیض آباد اور لکھنؤ کے اساتذہ نے مکمل کرا دی تھی۔ خلیق نے ابتداء میں کچھ دن اپنے والد میر حسنؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔ میر حسنؔ ان دنوں ’’مثنوی سحرالبیان‘‘ لکھنے میں مصروف تھے اس لیے انہوں نے خلیقؔ کو مصحفیؔ کی شاگردی میں دے دیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے میر حسنؔ خلیق کو میر تقی میرؔ کے پاس لے گئے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ہی اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دے پارہے ہیں تو کسی اور کی اصلاح و تربیت کا دماغ کہاں سے لائیں۔ میرؔ صاحب سے یہ جواب سنننے کے بعد ہی ان کو مصحفیؔ کے سپرد کیا۔ اس میں شک نہیں کہ غزلیات کی حد تک مصحفیؔ نے خلیقؔ کی مناسب رہنمائی کی اور اس فن کی باریکیوں سے واقف کرایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصحفیؔ نے شعراء کے تذکروں پر مشتمل کتاب ’’تذکرہ ہندی‘‘ میر خلیقؔ کی فرمائش پر مرتب کی۔ میر خلیقؔ کی ابتدائی ملازمت فیض آباد کے ایک نیشاپوری خاندان میں 15 روپیہ ماہوار پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ نواب آصف الدولہ کے بہنوئی مرزا محمد تقی خاں ترقیؔ کی سرکار سے وابستہ ہوگئے تھے۔ بسا اوقات فیض آباد سے لکھنؤ آیا کرتے اور مرزا فخر الدین عرف مرزا جعفر کے ہاں جو محلہ پیر بخارا میں رہتے تھے کچھ دن مہمان رہا کرتے تھے اور لکھنؤ میں ہونے والے مشاعروں اور ادبی محافل میں شرکت کرتے تھے۔ اس وقت ان کی غزل گوئی عروج پر تھی۔ ایک دفعہ مرزا تقی خاں ترقیؔ نے ایک مشاعرہ بجائے لکھنؤ کے فیض آباد میں منعقد کیا اور خواجہ آتشؔ کو بھی لکھنؤ سے بلدایا۔ اس مشاعرے میں مصرع طرح تھا:
مثل آئینہ ہے اس رشک قمر کا پہلو
میرخلیقؔ نے اس طرح کے مصرع سے غزل کا مطلع بنا کر پیش کیا:
مثل آئینہ ہے اس رشک قمر کا پہلو
صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو
یہ غزل سننے کے بعد آتشؔ نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔
ادبی دفتر محاورات اور ضرب الامثال جس کے میر منشی میر حسنؔ تھے۔ بعد کو میر خلیقؔ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ جہاں زبان کی خوب چھان بین ہوتی تھی۔ سعادت یار خاں رنگینؔ دہلوی جب فیض آباد آئے تو میر خلیقؔ سے ملاقات کی اور رنگین نے میر حسنؔ کی ’’مثنوی سحرالبیان‘‘ کے بعض مشتبہ اشعار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان سے تصحیح لی۔
میر خلیقؔ کا مستقل قیام تو فیض آباد میں رہتا تھا لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ وہ کچھ کچھ مدت کے لیے لکھنؤ بھی آجایا کرتے تھے۔ یقین کے ساتھ نہیں معلوم کہ انہوں نے کب فیض آباد کی سکونت ترک کر کے لکھنؤ میں قیام اختیار کیا۔ جب تک فیض آباد میں رہے اہل سخن کی اصلاح کا کام انجام دیتے رہے چنانچہ ان کے شاگردوں میں میراوسط علی رشکؔ اور سید محمد خاں رندؔ بھی تھے۔ لکھنؤ آنے کے بعد دونوں کے مضامین میں شعر میں جوبین فرق ہے وہ ان کی قوت تخیئل کو ظاہر کرتا ہے۔ میر انیسؔ نے رخ پر تل کو ناخن پر سیاہ نقطے سے تشبیہہ دے کر بے حد جاندار مضمون پیدا کیا ہے۔
اس خاندان میں غزل گوئی کا سلسلہ انیسؔ پر آ کر ختم ہوگیا بلکہ جہاں خلیقؔ کی غزلیات بہ مشکل دستیاب ہیں وہاں انیسؔ کی غزلوں کا کوئی بھی ماخذ نہیں ہے۔ انیسؔ ابتداء میں غزلوں پر خلیقؔ ہی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ باپ نے یہ محسوس کیا کہ غزل کا میدان انیسؔ کے لئے تنگ ہوگا اس لیے انہوں نے ایک دن غزل پر اصلاح دینے کے بعد انیسؔ سے کہا کہ ’’میاں اب اس غزل کو سلام کرو‘‘۔ اس دن سے انیسؔ نے اپنے والد کے مشورے پر عمل کیا اور بعد میں صرف سلام اور مراثی ہی کہے۔ خلیقؔ کی رائے کس قدر درست تھی کہ انہوں نے اردو کو انیسؔ جیسا شاعر دیا جس کے کلام کے وزن ترازوئے شعر کا پلہ گراں کردیا۔
غزل کے جو اشعار میر انیسؔ سے منسوب ہیں ان کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت نہیں لیکن اشعار کا حسن خود ہی اس کا گواہ ہے۔
عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹہ کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر
رکھ کے منہ سو گئے ہم آستیں رخساروں پر
اتنا جاگے تھے کہ نیند آگئی انگاروں پر
کھلا باعث یہ اس بے درد کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتاہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
لکھ کر زمیں پہ نام ہمارا مٹا دیا
ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا
میر خلیقؔ کے زمانے میں چوں کہ ناسخؔ کی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکا تھا اور الفاظ کے بلحاظ فصاحت ترک و اختیار کا سلسلہ جاری تھا اس لیے میر خلیقؔ کے ابتدائی اشعار میں اور آخر عمر کے کلام میں اچھا خاصا فرق ہے۔ ان کا کلام دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کے درمیانی دور کا نمونہ ہے جس میں انہوں نے محاورات اور روز مرہ کے استعمال میں نہایت نفاست سےکام لیا اور یہی چیز میر انیسؔ نے ورثہ میں پائی تھی۔
میر خلیقؔ نے 1844ء میں عمر عزیز کے 77 سال گزارنے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کیا اور وراثت میں 3 لڑکے اور 4 لڑکیاں چھوڑیں جن میں میر ببر علی انیسؔ سب سے برے تھے۔
جو عنایت الٰہی سے ہوا نیک ہوا
نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا