- کتاب فہرست 183877
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب868 تحریکات290 ناول4293 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1075
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات670
- ماہیہ19
- مجموعہ4828
- مرثیہ374
- مثنوی813
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ178
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
مرزا عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
وکالت
منظور ہے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے وکالت بھی کیا ہی عمدہ۔۔۔ آزاد پیشہ ہے۔ کیوں؟ سنیے میں بتاتا ہوں۔ پار سال کا ذکر ہے کہ وہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا کہ صبح کے آٹھ بج گئے تھے مگر بچھو نے سے نکلنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ لحاف
انگوٹھی کی مصیبت
میں نے شاہدہ سے کہا، "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔" شاہدہ نے کہا، "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔" میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک
ٹیلی فون
بیسویں صدی کی بہترین ایجاد، کیا بلحاظ فوائد بنی نوع انسان اور کیا بلحاظ آرام و آسائش، اگر ہے تو ٹیلی فون ہے۔ (۱) مندرجہ بالا اقتباس میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے نہایت ہی اطمینان سے اپنی میز پر نظر ڈالی اور کیوں نہ ڈالتا کہ میں بھی ایک ٹیلی فون
کرکٹ میچ
(۱) کرکٹ میچ پر آج کل برسات کے موسم میں کوئی مضمون لکھنا ’’بےفصلی‘‘ سی چیز ہے۔ بالخصوص جب کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کرکٹ کے واہیات میچوں کا حال اور ان کی خبریں چھاپتے چھاپتے اخبار والوں نے پبلک کو پست کر دیا اور پھر اب تو ایم سی سی والے بھی ہندوستان
یکہ
’’دس بجے ہیں۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے اپنی موٹی سی نازک کلائی پر نظر ڈالتے ہوئے جماہی لی۔ نواب ہمت قدر نے اپنی خطرناک مونچھوں سے دانت چمکا کر کہا، ’’گیارہ، ساڑھے گیا بجے تک تو ہم ضرور پھو۔۔۔ ہونچ۔۔۔ بغ۔۔۔‘‘ موٹر کو ایک جھٹکا لگا اور تیوری پر بل ڈال کر نواب
شاطر کی بیوی
عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔
مصری کورٹ شپ
’’میں نے جو پیرس سے لکھا تھا وہی اب کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر دیکھے بھالے شادی کر لوں، سو اگر آپ میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو مجھ کو اپنی منسوبہ بیوی کو نہ صرف دیکھ لینے دیجئے بلکہ اس سے دو چار منٹ باتیں کر لینے دیجئے۔‘‘
رموز خاموشی
میں چار بجے کی گاڑی سے گھر واپس آ رہا تھا۔ دس بجے کی گاڑی سے ایک جگہ گیا تھا اور چونکہ اسی روز واپس آنا تھا لہٰذا میرے پاس اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا۔ صرف ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے اترے۔ ان کا قد بلا
ممتحن کا پان
ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کرلیتے ہیں، مگر جناب میں غیرجنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو۔ اب تو نہیں لیکن
تیمارداری
پانچ چھ سال انگلستان میں رہ کر میں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ کچھ دن تک تو نتیجے کا انتظار رہا اور خوب ملک کی سیر کی۔ اب ارادہ ہو رہا تھا کہ کیوں نہ یورپ کے مشہور ممالک کی پہلی اور آخری مرتبہ سیر کی جائے۔ والد صاحب روپیہ جس تنگ دلی سے بھیجتے تھے، اس
کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟
ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو خوبصورت ترین ہستی یعنی خدانے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے جیسے رسالوں کے ایڈیٹر۔ یا شیطان کے کان بہرے، خود ہماری گھر والی اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو شاید خدائے تعالیٰ نے فرشتوں سے ٹھیکے پر بنوایا ہے اور ان ٹھیکیداروں نے ہم کو اس تیزی
خود مختار دوشیزہ
(انگلستان کی ایک جھلک) ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دوسرا گلاس ختم کرتے ہوئے پوچھا، ’’بولتی نہیں، یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ اس کے سرخ ہونٹ دہکنے لگے۔ سارا چہرہ شرارت کے نور سے تلملا اٹھا۔ صاف و شفاف چہرے پر سرخی جھلکنے لگی۔ چہرہ مسرت آمیز جذبات کا آئینہ تھا۔ اس نے
چاول
گزشتہ جولائی کا ذکر ہے کہ ا یک عجیب شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت ایک کمپنی کے ٹریولنگ ایجنٹ ہیں۔ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے۔ ایک اور صاحب ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے، جن سےملاقات ہوئی اور ان کی وجہ سے آپ سے بھی تعارف حاصل ہوا۔ میں نے دونوں حضرات کو
بڑے شرم کی بات
اماں جان نے خوشخبری سنائی کہ ’’افضل آ رہا ہے۔۔۔‘‘ ’’ارے!‘‘ میرے منہ سے نکلا مگر میں چپ ہوکر سیدھی اٹھی اور چلی گئی۔ یہ واقعہ تھا کہ بھائی افضل آ رہے تھے۔ کون بھائی افضل؟ بس نہ پوچھئے۔ جب کا ذکر ہے کہ بھائی افضل ہمارے ہاں رہتے تھے۔ بخدا کیا زمانہ تھا۔
رساکشی
میں اپنے اس افسانے کو ایک موٹے سے رسے کے نام نامی پر معنون کرتا ہوں جو بڑے زور و شور سے کھینچا جا رہا ہے۔ (۱) عرصہ کئی سال کا ہوا ہم دو دوست دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے وطن لاہور سے کلکتے گئے۔ وہاں سے واپسی کا ذکر ہے کہ میرے دوست تو وہیں رہ گئے اور
مہارانی کا خواب
میری عمر جب دو برس کی تھی تو کئی جگہ سے میری شادی کے پیغام آئے۔ منجملہ ان کے صرف ایک ایسا تھا جو ہم پلہ والی ریاست کے یہاں سے تھا لیکن لڑکی بہت بڑی تھی۔ در اصل اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی اور میں صرف دو برس کا بچہ۔ چونکہ یہ پیغام ایک ہم پلہ مہاراجہ
نیکی کرنا جرم ہے
پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابل دست اندازی پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔ (۱) ایک روز کا ذکر
رنگروٹ کی بیوی
جنگ کے آخری زمانے میں جو کشمکش میدان جنگ پر ہوگی، اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ رکوٹنگ افسر یعنی ضلع کے سپاہی بھرتی کرنے والے افسر کے یہاں گشتی چٹھی آ گئی تھی کہ کم قد کے سپاہی بھی بھرتی کر لیے جائیں اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثر ایسے
پٹی
پٹیاں ایک تو وہ ہوتی ہیں جو چارپائیوں میں لگائی جاتی ہیں اور ایک وہ جو سپاہیوں کے پیروں پر باندھی جاتی ہیں، پھر اور بہت قسم کی پٹیاں بھی ہیں، لیکن میرا مطلب یہاں اس پٹی سے ہے جو پھوڑا پھنسی یا اسی قسم کی مصیبتوں کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے یہاں باندھی جاتی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-