- کتاب فہرست 184502
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4300 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1081
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4828
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
محمد علیم اسماعیل کے افسانے
شوکت پہ زوال
آج فرحان خان تذبذب میں تھے۔ وہ بڑے پریشان نظر آ رہے تھے۔ کوئی فکر ان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ گھر کے آنگن میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹہلتے جاتے تھے۔ کچھ دیر رکتے پھر بیٹھ جاتے۔ کبھی پانی پیتے اور پھر سے ٹہلنے لگتے۔ جب انھیں کسی طرح بھی سکون
خیالی دنیا
وہ ایک ذہین و محنتی لڑکا تھا اور بڑے ہی اچھے اخلاق کا مالک تھا۔ فیس بک پر اس کے دوستوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، اتنے ہی فالورز ٹویٹر پر تھے اور واٹس اپ کانٹیک بھی کچھ کم نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ آن لائن رہتا، ہر کسی کی فرینڈ رکوسٹ قبول کرتا، کبھی کسی کو بلاک
خطا
یہ میرے ہاتھ قلم و قرطاس کی جانب کیوں بڑھ رہے ہیں۔ رہ رہ کر چند لکیریں تحریر کرنے کی خواہش میرے باطن میں یوں انگڑائیاں لے رہی ہے جیسے بنا پانی کے مچھلیاں پھڑ پھڑاتی ہو۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے آج کچھ تخلیق نہ کی تو میرا سینہ پھٹ جائےگا۔ ایک ان
مٹھا
’’کتنی دفعہ سمجھایا تمھیں۔ کیا کمی چھوڑی تھی میں نے۔ جی جان سے تمھیں پڑھاتا ہوں۔ دو سوالات کے جواب نہیں دے سکتے۔ اسکول میں پڑھنے آتے ہو یا ٹائم پاس کرنے۔۔۔ مٹھا کہیں کے۔۔۔‘‘ اس روز ان تینو ں پر میں گرج دار آواز میں خوب چلایا کیوں کہ وہ
تاک جھانک
وہ اپنی تمناؤں کو سینے میں دباکر آخر کب تک رکھتا۔ اس کا بھی دل چاہتا دوسرے بچوں کی طرح اس کے پاس بھی اچھا اور نیا بستہ ہو، نئے جوتے اور اچھا یونیفارم ہو۔ اگرچہ وہ ابھی لڑکپن میں ہی تھا مگر اپنی غریبی اور گھر کے نا گفتہ بہ حالات کو بخوبی سمجھتا تھا۔ حالات
الجھن
رات کا آخری پہر تھا اور میں گہری نیند میں تھا۔ کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور آنگن میں لے آیا۔ گھر کے آنگن میں بہت ساری قبریں ابھر آئی تھیں اور عجیب سی ڈراؤنی آوازیں کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا اگر یہ آوازیں بند نہ ہوئی تو کانوں
انتظار
پریشاں ہو چکا میرا وجود پریشانی کے لق دق صحرامیں چلنے کے لیے مجبور تھا۔ لیکن ہر منزل پر سراب ہی سراب دکھائی دیتا تھا۔ میں اذیت سے گھرا گھر کی جانب قدم بڑھائے جا رہا تھا۔ زمین کا سینہ چیر کر اس میں سما جانے کو دل چاہ رہا تھا۔ اب تک استقلال کا دامن ہاتھ
قربان
ننھی ننھی معصوم آنکھوں میں آنسو لیے رانی دروازے کو تکے جا رہی تھی اس کو معلوم تھا کہ چاہے وہ کتنی ہی منت کرے مگر دادی کے ڈر سے کوئی بھی اسے اسپتال لے کر نہیں جائےگا۔ وہ بڑی بے صبری سے ہر اُس شخص کا انتظار کرتی جو اسپتال سے آنے والا ہوتا۔ سہیل سے رانی
وفا
باپ بیٹے میں آج پھر توتو میں میں ہو گئی تھی۔ بیٹے نے کہا ’’آپ ہماری زندگی کو اور جہنم کیوں بنا رہے ہیں۔ آپ ہم کو اکیلا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ باپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ،اور بھررائی آواز میں کہا ’’جب سب کی پریشانی کی وجہ میں ہوں تو میں اس گھر میں کر کیا
خوف ارواح
خوف ارواح اسے یاد ہے۔ وہ رات بہت بھاری ہو گئی تھی، جب وہ شہر سے اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ رات کے گیارہ بج گئے تھے اور وہ پیدل چل رہا تھا۔ چاروں طرف سیاہ تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں جب وہ وہاں سے گزر رہا تھا نجانے کیسی کیسی آوازیں اس کے کانوں میں
پریشانی
وہ ہر بات مان لیا کرتی تھی، بلا تا مل۔۔۔ ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔ جب میں کچن میں کوئی کام کرتی تو وہ میرے ہاتھوں سے چھین لیتی اور کہتی اب آپ کی بیٹی بڑی ہو گئی ہے، آپ صرف آرام کیجیے۔ جب میں اسے کہتی کہ ایک راج کمار آئےگا تجھے گھوڑے پر بٹھا کر لے جائےگا،
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-