- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
محمد امین الدین کے افسانے
الٹی کھوپڑی کا آدمی
اظہار رائے کی آزادی اور فیصلہ کرنے کے اختیار کے بغیر اسے اپنے کاروباری دوست اور دیگر چھ افراد کے ہمراہ ایک کمرا دے دیا گیا جس کی کھڑکی سے سیاہ پتھریلے پہاڑ کو ہاتھ بڑھا کر چھوا جا سکتا تھا۔ کمرے میں فوم کے گدے اور پولیسٹر کی رضائی والے آٹھ درمیانے سائز
آدم اور خدا
اس نے پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں اور نہ ہی اس کے دماغ نے پوری توانائی سے کام شروع کیا تھا، مگر نامانوس اور غیر محسوس طریقے سے اس نے یہ جان لیا کہ وہ کسی نئی جگہ پر قید کر دیا گیا ہے۔ ٹیلے سے واپسی پر وہ جان چکا تھا کہ اسے ریاست کا قانون توڑنے
کرداروں میں بٹی ہوئی زندگی
تہذیب کے انتقال کے بعد بوڑھے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔ جو وہ اونچی چھتوں، وسیع و عریض کمروں، لمبے دالانوں، پر پیچ سیڑھیوں، گھومتی راہداریوں والی قدیم حویلی میں رہتا۔ بچوں سے اس کا رشتہ تو بہت پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔ جب چھوٹی بہو نے اس کی یادداشتوں اور غزلوں
مشرق تیری بیٹی کو
وہ چاروں طرف پھیلے اندھیرے میں لاکھوں زندہ مگر بے حس انسانوں کے بیچ تیز ہواؤں سے نبرد آزما جلتی لالٹین ہاتھ میں لیے آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ اچانک ہوا کے تھپیڑے نے روشنی گل کردی۔ اندھیرا موت کی سیاہی میں تبدیل ہوگیا اور رگوں کو چیرتا شور جاگ اٹھا۔
آوازیں
مرمریں فرش پر دور سے نزدیک ہوتی ہوئی سخت ایڑی والے جوتوں کی ٹَک ٹَک، چوڑیوں کی چھن چھن اور موسم کے پھولوں کی نرم و لطیف خوشبو نے میرے حواس کو چھوا اور لمحہ بھر کو مجھے سحر زدہ کر دیا اور پھر ایک ہی ردھم میں رقصاں آوازیں اور پھولوں کی مہک مجھ سے آگے نکل
فالودہ
آپ نے اسد محمد خان کی ٹکڑوں میں کہی کہانی تو ضرور پڑھی ہوگی، مگر میں جو آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ ٹکڑوں میں سنی ہوئی کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ گزشتہ چار پانچ سالوں سے معمول کے سفر پر جانے کے لیے میں گھر سے نکلتے ہوئے ایک کہانی کا تانا بانا بن چکا تھا۔ اچھوتا
بھابی جان
جنازے کے دہلیز پار کرتے ہی بھابی جان کی آنکھوں میں حیرت سے برف ہوئے آنسو چھلک پڑے۔ وہ غم سے چیخیں نہ درد سے چلائیں، بس ٹک ٹک اپنے محبوب شاعر اور چالیس سال کے رفیق کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ دل و دماغ تو ساری طنابیں رات ہی کو توڑ چکے تھے جب چاروں بیٹے
ایک گاؤں کی بیٹی
فضل دین سارے گاؤں میں اکیلا ہی لوہار اور دھار لگانے والا تھا۔ درمیانے قد کا ادھیڑ عمر فضل دین گاؤں کی کچی سڑک کے کنارے بنائی ہوئی چھپروں والی دوکان میں صبح سے شام تک کام کرتا رہتا۔ رات جب تھک ہار کر گھر آتا تو چارپائی پر ڈھیر ہو جاتا۔ اس کی کوئی سماجی
میرے والد صاحب
میں انہیں سب گھر والوں کی طرح چاچا کہتا تھا۔ حالاں کہ ان سے میرا خون کا رشتہ تھا۔ چوں کہ میرے والد اور تایا ایک ساتھ رہا کرتے تھے اور والد صاحب کو تایا ابا کی اولادیں چاچا کہا کرتی تھیں۔ چنانچہ جب سب سے بڑی بہن کی ولادت ہوئی تو انہوں نے بھی والد کو تایا
ڈراپ سین
ذوق بہت دنوں سے احتشام اللہ کے کردار میں الجھا ہوا تھا۔ اس نے اس کردار پر بہت محنت صرف کی تھی۔ مشاہدے اور تجربے کی آنچ پر اسے مہینوں تپا کر کندن بنایا تھا۔ وہ روز کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا۔ زندگی کے رویوں۔۔۔فرد کی الجھنوں۔۔۔خوشی میں روح سے اٹھنے والی تھرکتی
جلن
جلتی آنکھوں، تپتے دماغ، سلگتے سینے اور نفرت انگیز دل سے اس نے جو کچھ کیا ،اس پر وہ مطمئن تھا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ وہ درمیانی تعلیم اور کمتر ذہانت والاشخص تھا۔ اس کا دل اور دماغ جوفیصلہ کرسکتے تھے، اس نے وہی کیا۔ زندگی کے اسٹیج پر ایک ساتھ چلتے
احساس سے عاری شہر
مردہ لوگوں سے بھرا ہوا شہر، یہاں کفن ہی کفن ملتے ہیں۔ حد نگاہ کتبے ہی کتبے ہیں۔ ڈھانچے ہی ڈھانچے۔ جیسے شہر نہ ہو ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ ہر قبر ایک دوسرے سے نزدیک مگر ایک دوسرے سے غافل۔ برابر میں کون ہے، نہیں معلوم۔ اوپر نیچے کتنے ہی دفن ہیں، کسی کو
گویم مشکل
مجھے حکم ہوا ہے کہ کہانی کا آغاز میں کروں۔ میں وہی قربان علی ہوں جس نے تمنا اور اس کی بیٹی گلاب کو دہلادینے والی حالت سے نکالا۔ ورنہ قسم بات بنانے والے کی سعید شاہ کے ساتھ جو ہوا، وہ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔ سعید شاہ میرا شاگرد، میرے چھوٹے بھائی
نہ پاہے رکاب میں
ٹھیلے پر دھری پرانی کتابوں کو کھنگالتے ہوئے میری نگاہ بوسیدہ غیر مجلد کتاب پر پڑی۔ الٹ پلٹ کر دیکھا۔ کتاب کا عنوان اور مصنف کا نام غائب تھا۔ ورق الٹے تو اندازہ ہوا کہ کوئی کہانی ہے۔ مجھے اشتیاق ہوا۔ کاسموپولیٹن کے خصوصی شمارے ، ابوالفضل صدیقی کے افسانوں
کچرا کنڈی
پھٹے ہوے مڑے تڑے بدرنگ کاغذ، سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، پکی ہوئی چائے کی پتی، چّسی ہوئی ہڈیاں، ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور سالنوں کا ڈھیر، جس میں سے اب سڑاند آنے لگی تھی، اور شاید سڑاند تو اب پورے کچرے کے ڈھیر سے آرہی تھی۔ مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کچھ
درد آشنا لوگ
غیرارادی طور پر میں نے اپنے قدم روک لیے، کہ کہیں میرے پیروں تلے کوئی لاش، کوئی زخمی نہ آ جائے۔ مگر وہاں گرد و غُبار کے سوا کچھ نہ تھا۔ دو ماہ سے بند اسکول میں اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا۔ مجھے لمحہ بھر کو ایسا لگا کہ جیسے کچھ لوگ خون میں لت پت ادھڑی
اغواء
۱۶ نومبر ۲۰۰۱ء کی سبک سرنرم دھند میں لپٹی ہوئی صبح، جب کرۂ ارض پر عالمی لغت انسانی میں حاکمیت، انسانیت ، جنگ ، امن بھائی چارہ اور دہشت گردی جیسے لفظوں کے معنی بدل چکے تھے۔ ایک عورت ساری رات کی طلاطم خیز شب بیداری کے بعد بیٹھی نہ جانے کیوں دعائیں مانگ
آغا وِلا
آغا ولا میں زندگی خوشیوں کے تمام حسین رنگوں سے بھری ہوئی تھی۔ چاروں سمت قہقہے، رنگارنگی، محبتوں کا امڈتا ہوا طوفان، جس میں تمام رشتے، تمام حوالے صرف محبتوں کے تھے۔ عیش و عشرت کی فراوانی میں ڈوبے شاداب چہرے، ہر چہرہ مطمئن و مسرور ،دکھ درد کا دور دور تک
گڈو
میں نے دروازے پر پڑے تالے میں چابی گھمائی۔ تالا ہلکی سی جنبش سے کھل گیا۔ لوہے کے دروازے کو میں نے اندر کی طرف دھکیلا۔ دروازہ کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ سامنے ایک تنگ سی تقریباً چار فٹ چوڑی گلی ہے۔ فرش سیمنٹ کا اور جگہ
کائنات
وہ جب سوئے تو تین تھے، مگر جاگے تو انہوں نے تیسرے کو نہ پایا۔ اس کے رنگوں کا تھیلا اور لکڑی کے تراشیدہ برش بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کی چادر بھی غائب تھی، جسے وہ ہمیشہ اوڑھے رکھتا تھا۔ یہ دونوں اپنی اپنی فطرت میں مختلف تھے۔ جیسے خیر و شر۔ تیسرا
زنجیر
ہسپتال نمبر ۱ لمبے بالوں میں سرخ ربن باندھنے والے درمیانے قد کے نوجوان کا جملہ سن کر ڈاکٹر کے الفاظ فضا کی سانس چیرتے ہوے گزر گئے۔ یوں لگا جیسے کوئی غصّے میں دھاڑا ہو: ’’آپ کیسے انسان ہیں۔ آپ کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ آپ کا مریض کس تکلیف اور
کائنات
وہ جب سوئے تو تین تھے، مگر جاگے تو انہوں نے تیسرے کو نہ پایا۔ اس کے رنگوں کا تھیلا اور لکڑی کے تراشیدہ برش بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کی چادر بھی غائب تھی، جسے وہ ہمیشہ اوڑھے رکھتا تھا۔ یہ دونوں اپنی اپنی فطرت میں مختلف تھے۔ جیسے خیر و شر۔ تیسرا
چیونٹیوں کی طرح مت چیخو
افسانے کے ان کرداروں سے ملنے اور ان کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ چیونٹیوں کے چیخنے چلانے اور رونے کی آوازیں کوئی نہیں سنتا، بس وہ کچلی جاتی ہیں۔ تماشاگاہ میں بھیڑ ہو، شور ہو تو سچی آوازیں گم ہو جاتی ہیں اور اگر لوگوں کی تقدیر کچھ دوسرے
موجود غیر موجود
پہلی سطر پڑھتے ہی وہ چونکا۔ مولا داد چوک پر فوارے کی تنصیب۔ اس نے فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ایڈمنسٹریٹو اپرووَل۔۔۔ مکمل، ٹینڈر ڈاکومینٹس۔۔۔ درست، سیکورٹی ڈپازٹ۔۔۔ موجود ، کمپلیشن۔۔۔ اسٹی میٹ کے مطابق۔ اس نے فائل کو میز پر رکھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ ٹرانسفر
جنہیں نہیں ہونا تھا
ان دیکھی لکیر پار کرتے ہی میرے لیے یکایک سب کچھ بدل گیا۔ عجب سی کھلبلی مچ گئی او رہر طرف افراتفری سی پھیل گئی۔ روشن تصویریں دھندلے رنگوں میں ڈھل گئیں۔ سینکڑوں بلکہ لاکھوں ایک دوسرے میں پیوست اور پھر جدا ہوتے رنگ برنگے دائرے اور ان میں بنتی بگڑتی زندگی
نادیدہ
صبا نے جوں ہی ہونٹوں کو ہلتے ہوے دیکھا، وہ ڈاکٹر کو بلوانے کے لیے دوڑی۔ ماں کے ہونٹوں کی جنبش سے سمجھی کہ وہ ہوش میں آرہی ہیں۔ وہ ایسا کئی بار سمجھ چکی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ امی کسی سے باتیں کررہی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سیاہ تارکول
بس اتنا ضروری ہے
کچھ دنوں سے جب میں بیدار ہوتی ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ دوسرے تکیے کو چھونے لگتا ہے۔ میری طرح خالی پڑے تکیے کو۔۔۔ قریشیے کی بنائی کو چھوتے ہوئے میں انور کی یاد کی جھالر میں الجھ جاتی ہوں۔ یقیناً وہ بیدار ہو گئے ہوں گے۔ انہیں تو یوں بھی سویرے جاگنے
تماشا گاہ
سوال سے گریز، امکانات کا راستہ بند کرنے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر طوفان کے ٹل جانے کی امید کرنے والی قوم کی سرزمین پر جنم لینے والی اس کہانی کے دو کردار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو صرف ایک حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر کبھی ملے نہیں ایک ملک کے بھی نہیں
ریلوے کراسنگ
سرخ بتی روشن ہوتے ہی بڑی گاڑیاں رکنا شروع ہوگئیں۔ موٹر سائیکل سوار جلدی جلدی گزرنے لگے۔ فرنیچر سے لدی سوزوکی والے نے نکلنے کی کوشش کی، مگر لوہے اور لکڑی سے بنی ہوئی سرخ اور سفید دھاری دار علامتی رکاوٹ تیزی کے ساتھ بلندی سے زمین کی طرف آنے لگی۔ ڈرائیورنے
بساط کا آخری مہرہ
مغرب کی نماز کے بعد صحن کے درمیان قد آور نیم کے بوڑھے، گھنے اور سایہ دار درخت کی چھپر چھاؤں تلے دودھیا بلب کی شفاف روشنی کے پھیلاؤ میں شیشم کی منقش میز پر شطرنج کی بساط بچھا دی گئی۔ میز کے گرد پڑی کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ بادشاہ وزیر اپنے ہاتھی گھوڑوں
دھن چکر
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس سانحے کی کہانی لکھوں یا نہ لکھوں جسے برپا ہوتے ہوے شہر کی ایک گلی کے سنسان موڑنے، ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں انسانی جسموں سے اعضا نوچ لینے والے اوزاروں نے، جوئے کے اڈے میں پھیلے ہوے کثیف دھوئیں نے، پانچ ستارہ ہوٹل والے
کہانی سے پہلے کا ماجرا
میں نے جوں ہی قلم سنبھالااسٹڈی تاریک ہوگئی۔ ’’ہتھ تیرے کی‘‘۔ منہ سے بے اختیارنکلا اور اچھی خاصی سوچی ہوئی کہانی دماغ سے اچھل کر تاریکی میں تحلیل ہوگئی۔ لمحہ بھر کو سامنے رکھے کاغذ بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ یو پی ایس سے جو بلب اور پنکھے گھر کو روشن
ترنم ہاؤس
افسانہ لکھنے کے لیے کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات ہی بہت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ترنم ہاؤس ایل پندرہ سو تینتالیس میں رہنے والے پچاس سالہ نواب الہ آبادی، ان کی انچاس سالہ بیوی ترنم جہاں، دو بیٹے سہراب، مہتاب اور بیٹی خانم جہاں کا یہ افسانہ جس میں مصنف کو کہانی
برفیلے لوگ
یہ ۱۹۸۸ء کا وسط ہے۔ آدم جان نے کار کو اچانک بریک لگایا۔ گاڑی خوفناک چرچراہٹ کے ساتھ ضدی بچے کی طرح رک گئی۔ سامنے تار کول کی چمکتی ہوئی سڑک پر جا بجا چھوٹے چھوٹے شیشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، جنہیں سفید چمکتی دھوپ نے ہزاروں چھوٹے بڑے ہیروں میں تبدیل
مدیون کا نسیان
مدیون سیڑھیاں چڑھتے ہوے اچانک رک گیا۔ گردن جھکا کر دیکھا، ایڑیوں کے پیچھے اور پنجے کے آگے قدمچے گہری کھائی میں اترتے اور آسمان میں گم ہوتے ہوے محسوس ہورہے تھے۔ مگر دوسرے ہی لمحے کھائی میں اترنے اور آسمان میں گم ہونے کا خوفناک احساس جاتا رہا۔ سیڑھیاں
ملامتی
مہر آج اپنے گھر نہ پہنچ سکی تھی۔ دو میل پیدل چل کر وہ جیسے ہی خالہ اماں کے گھر میں داخل ہوتی اپنے کام میں لگ جاتی۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا اور نہ ہی کوئی آرام کی خواہش۔ بس اسے تو یہ یاد ہوتا کہ جلد سے جلد یہاں سے کام ختم کرکے اسے اگلے بلاک میں جانا
پندرھواں سال
آج ہفتہ ہے اور معمولات کے مطابق آج مجھے ماں کا ہاتھ بٹانا ہے۔ ماں، جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں۔ وہ تو میں پہلے بھی بہت کرتا تھا، مگر اب زیادہ کرنے لگا ہوں۔ عمر کے کئی برس میں نے اور ماں نے اکیلے ہی گزارے ہیں۔ اسی چھوٹے سے تین کمروں کے فلیٹ میں ابو کے
سوال
(سماجی مذہبی ذہنی ارتقا) سوال سے گریز، امکانات کا راستہ بند کرنے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر طوفان کے ٹل جانے کی امید کرنے والی قوم کی سرزمین پر جنم لینے والی اس کہانی کے دو کردا رہیں۔ یہ ایک دوسرے کو صرف ایک حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر کبھی
مجسمہ
مددگاروں کو رخصت کرنے کے بعد ایقان دیر تک سنگِ مر مر کو چاروں طرف سے دیکھتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس چٹان کو اپنے حسین تصورات کا روپ دینے میں ضرور کامیاب ہوگا۔ اسی دوران اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ برآمدے میں موم کھڑی ہوئی تھی۔
نوشتۂ پسِ دیوار و در
(انسان کی بے اختیاری) جوں ہی فیصل نے کہا ’اے خدا! میں ٹھیک دس بجے خود کشی کرنے والا ہوں، اگر تو مجھے رو ک سکتا ہے تو روک لے، واقعات کا ایک دراز سلسلہ شروع ہوگیا۔ یکایک دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے پر یقین لہجے میں خود سے کہا۔ ’’دروازہ نہیں کھولوں گا‘‘۔ اورپھر
ایک اور عذاب
مندرا پریس کلب کی فٹ پاتھ پر بیٹھی خود کو ننگا کرنے کے لیے بے قرار تھی، تاکہ زندگی کی دہر ی اذیت سے چھٹکارا مل سکے۔ وہ مسلسل بیس برس سے زبان کی گوری چمڑی سے چپکا ہوا سچ اگل دینا چاہتی تھی۔ وقت بھی کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ اپنے گورے
بند گلی کا آخری مکان
پھولوں پر منڈلانے والی خوش رنگ تتلی جانتی ہے کہ بند گلی کے آخری مکان میں دو دن سے سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ نفیس اور متین بوڑھے استاد عبدالمجید کی آواز بھی سنائی نہیں دی، جو وہاں اکیلے رہتے ہیں اور جن کے پاس بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آبشار
گونگے بول
جھاڑیوں سے جھانکتے ہوے میں نے اپنے بھوک سے بلکتے بچے کو خود سے قریب کر لیا۔ وہ میرے ساتھ چپک کر چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ دوسروں کے بچوں کی طرح اسے میرے دودھ سے زیادہ رغبت نہیں۔ جو کچھ میں کھاتی ہوں یہ بھی وہی کھانا پسند کرتا ہے۔ گو کہ میں اسی سامنے
آتش فشاں پر بنا گھر
اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔ ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا
ساٹن پر پڑی سلوٹیں
میں ایک برس سے زیادہ ان کے ساتھ گزارنے کے باوجود یہ نہ جان سکا کہ وہ کینسر میں مبتلا ہیں۔ اگر مَیں زبردستی انہیں ہسپتال نہ لاتا تو اب بھی نہ جان پاتا۔ نرس اور وارڈ بوائے انہیں آئی سی یو میں شفٹ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ نیم خوابیدہ حالت میں انہوں نے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-