- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
محمد حمید شاہد کے افسانے
ماخوذ تاثر کی کہانی
وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے‘نئی نئی کہانیاں۔ مگر میں اس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔ اسے گلہ ہے‘ سب لوگ اس کی کہانیوں کو نیا تجربہ قراردیتے ہیں‘ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر میں‘ اس کی بیوی ہوتے ہوے بھی اس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔ یہ درست نہیں کہ میں
سجدۂ سہو
ایکا ایکی اُسے ایسے لگا جیسے کوئی تیز خنجر اُس کی کھوپڑی کی چھت میں جا دھنسا ہو۔ اس کاپورا بدن کانپ اُٹھا۔ جسم کے ایک ایک مسام سے پسینے کے قطرے لپک کر باہر آ گئے۔ اُس نے سر پر دوہتڑ مار کر لَاحَول وَلا قُوۃ کہا۔ عین اُس لمحے اُس کے ذِہن کی سکرین پر
ماسٹر پیس
میں جانتا ہوں ‘میرے افسانوں نے ادبی دنیا میں تہلکہ مجائے رکھا ہے۔ افسانوں نے مجھے جو مقام بخشا‘ تنقید اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اب بھی اگر کسی ادبی مجلے ‘اخبار یا رسالے میں مجھ پر کوئی مضمون لکھا جاتا ہے یا میرے متعلق کوئی خبر شائع ہوتی
جنم جہنم-۳
اور وہ کہ جس کے چہرے پر تھوک کی ایک اور تہہ جم گئی تھی۔ اُس کی سماعتوں سے تھوک کر چلی جانے والی کے قہقہوں کی گونج اَبھی تک ٹکرا رہی تھی وہ اُٹھا۔ بڑ بڑایا۔ ’’جہنم۔ لعنت‘‘ پھر اَپنے وجود پر نظر ڈالی اور لڑکھڑا کر گر گیا۔ اب نگاہ اوپر
جنم جہنم-۱
’’یہ جو نظر ہے نا! منظر چاہتی ہے۔ اور یہ جو منظر ہے نا! اَپنے وجود کے اِعتبار کے لیے ناظر چاہتا ہے۔ دِیکھنے اور دِیکھے جانے کی یہ جو اشتہا ہے نا! یہ فاصلوں کو پاٹتی ہے۔ اور فاصلوں کا وجود جب معدوم ہو جاتا ہے نا! تو جہنم وجود میں آتا ہے۔ اور
کہانی کیسے بنتی ہے
وہ میرے پاس آئی اور مجھے کرید کرید کر پوچھنے لگی: ’’کہانی کیسے بنتی ہے؟‘‘ مجھے کوئی جواب نہ سوجھ رہا تھا کہ میرا سیل میری مدد کو آیا ۔ دوسری جانب گاؤں سے فون تھا: ’’سیموں مر گئی۔‘‘ ’’کون سیموں؟‘‘ میں نے اپنے وسوسے اوندھانے کے لیے خواہ
مرگ زار
وہ دھند میں ڈوبی ہوئی ایک صبح تھی۔ مری میں میری پوسٹنگ کو چند ہی روز گزرے تھے اور جتنی صبحیں میں نے اس وقت تک دیکھی تھیں سب ہی دھند میں لپٹی ہوئی تھیں۔ کلڈنہ روڈ پر ہمارا دفتر تھا۔ ابھی مجھے گھر نہیں ملا تھا لہذا میں روزانہ پنڈی سے یہاں آیا کرتا
مراجعت کا عذاب
زریاب خان چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ ان گنت ستارے اس کے ذہن کے آکاش پر چمکے اور ٹوٹے تھے ‘ہمت بڑھی اور دم توڑ گئی تھی‘ قدم اٹھے اور لڑکھڑائے تھے۔ اس کے مقابل امیدوں کے لاشے صف در صف کفن پہنے لیٹے تھے۔ دفعتاً امید کی ایک نئی مشعل جل اٹھی۔ اس نے جانا‘
جنم جہنم-۲
وہ جو زِیست کی نئی شاہ راہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اس کا دامن گذر چکے لمحوں کے کانٹوں سے الجھا ہی رہا۔ اس نے اَپنے تئیں دیکھے جانے کی خواہش کا کانٹا دل سے نکال پھینکا تھا، مگر گزر چکے لمحے اُس کے دِل میں ترازو تھے۔ ’’یہ جو گزر چکے لمحے ہوتے ہیں نا!
کیس ہسٹری سے باہر قتل
سب ڈاکٹر ایک دوسرے سے کسی نہ کسی بحث میں جتے ہوے تھے سوائے ڈاکٹر نوشین کے ‘جس کے پورے بَد ن میں دوڑنے والی بےکلی اتنی شدت سے گونج رہی تھی کہ وہ بلانے والوں کو’ ہیلو ہائے ‘سے آگے کچھ نہ کَہ پاتی تھی۔ اس نے قصداً اَپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور ایک نظر
تماش بین
عورت اور خُوشبو ہمیشہ سے میری کمزوری رہے ہیں۔ شاید مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ عورت اور اس کی خُوشبو میری کمزوری رہے ہیں۔ یہ جو ‘اَب میں عورت کو بہ غور دیکھنے یا نظر سے نظر ملا کر بات کرنے سے کتراتا ہوں تو میں شروع سے ایسا نہیں ہوں۔ ہاں تو میں
ککلی کلیر دی
قلم ککلی؟۔۔۔ یہ کیا عنوان ہوا؟؟ اسے اعتراض تھا۔ وہ میری تحریروں کی پہلی قاری تھی اور ناقد بھی۔ میں نے کہا: تمہارے نزدیک قابل اعتراض لفظ "قلم" ہے یا "ککلی"؟ وہ اَپنی گہری بھوری آنکھیں میرے چہرے پر جماکر کہنے لگی: قلم بھی۔۔۔ اور۔۔۔ ککلی
دوسرا آدمی
کم آمیزی میرے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ سفر کے دوران تو میں اور بھی اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہوں۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ میلوں سفر کر جاتا ہوں مگر ساتھ بیٹھے مسافر سے رسمی علیک سلیک بھی نہیں ہو پاتی۔ مگر وہ عجب باتونی شخص تھا کہ اس نے زور ا زوری
بند آنکھوں سے پرے
راحیل کو زِندگی میں پہلی مرتبہ اَپنی بے بسی پر ترس آیا۔ کل شام تک وہ اَپنی قسمت پر نازاں تھا۔ کون سی نعمت تھی، جو اس کا مقدّر نہ ٹھہری تھی۔ یہ جو تتلی جیسی بچی نایاب اور پھولوں جیسے دو بچے نبیل اور فرخ پھلواڑی میں کھیل رہے ہیں، راحیل ہی کے
دکھ کیسے مرتا ہے
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی نبیل کا دِل اُلٹنے لگا، زخموں پر لگائی جانے والی مخصوص دواؤں کی تیزبُو نے سانسوں کی ساری اَمی جمی اُکھاڑ دی تھی۔ اُسے میڈیکل وارڈ نمبر تین جانا تھا مگر اس ہسپتال میں خرابی یہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایمرجنسی وارڈ
رکی ہوئی زندگی
وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا، ندیدہ ہو کر۔ عاطف اسے دِیکھ رہا تھا، ہک دَک۔ کراہت کاگولا پیٹ کے وسط سے اُچھل اُچھل کر اس کے حلقوم میں گھونسے مار رہا تھا، یوں کہ اسے ہر نئے وار سے خود کو بچانے کے لیے دِھیان اِدھر اُدھر بہکانا اور بہلانا پڑتا۔ وہ بھوکا تھا۔
بَرشَور
’’اْس نے اَپنی بیوی کے نام پر بیٹی کا نام رکھا۔۔۔ اور بیٹی کے نام پر مسجد بنا ڈالی۔۔۔ چھی چھی چھی‘‘ جب عبدالباری کاکڑ کی چھی چھی میرے کانوں میں پڑی ‘میں فضل مراد رودینی کی طرف متوجہ تھا اوریہ جان ہی نہ پایا‘ وہ افسوس کر رہا تھا ‘اس پر نفرین
نئی الیکٹرا
وہ کہتی ہے، وہ یوری پیڈیرز کی الیکڑا جیسی ہے۔ فر ق ہے تو اِتنا سا کہ پرانے والی الیکٹرا کو اس کی بےوفا ماں اور اس کے بَدطینت عاشق کی وجہ سے سب کچھ چھوڑنا پڑا، جب کہ اسے یعنی نئی الیکٹرا کو، جن لوگوں کی وجہ سے گھر بَد ری پر مجبور ہونا پڑا ان میں ایسے
کفن کہانی
ہاں میری معصوم بچی! میں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ کہانی اس کا کفن نہ بن سکی ‘ تو تمہارا کفن ضرور بنے۔‘ اور اب جب کہ تم زندگی کی سانسیں ہار چکی ہو تو میں تمہاری نعش کے سرہانے کا غذ تھامے اس کہانی کو لفظ دینے کا دکھ سہہ رہا ہوں۔ جب وہ آخری
اللہ خیر کرے
اُسے دفتر پہنچے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ محسن کو ایک عرصے کے بعدیاد آیا ‘دِل کی دھڑکن کبھی کبھی سینے سے باہر بھی اُبل پڑتی ہے۔۔۔ دَھک‘ دَھک ‘دَھک۔۔۔ یوں‘ جیسے کوئی زور زور سے میز پر مکے برسا رہا ہو۔ رات
موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ
وہ مر گیا۔ جب نخوت کا مارا ‘امریکا اپنے پالتو اتحادیوں کے ساتھ ساری انسانیت پر چڑھ دوڑا اوراعلا ترین ٹیکنالوجی کے بوتے پر سب کوبدترین اجتماعی موت کی باڑھ پر رکھے ہوے تھا‘ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں چپکے سے اکیلا ہی مر گیا۔ مجھ تک اس کے
منجھلی
اب سوچتا ہوں کہ میں نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا تھا ‘تو حیرت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ میں نے نہیں کیا تھا‘ خود بخود ہو گیا تھا۔ دراصل بھائی اور بھابی دونوں اتنی محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے ہیں کہ ان کے لیے کچھ بھی کیا جا
گرفت
ہم دو ہیں اور تیسرا کوئی نہیں۔ اگر ہے بھی تو ہم نے اسے ذہن کی سلیٹ سے رگڑ رگڑ کر مٹا ڈالا ہے۔ وہ میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے میرابدن اس موم کی طرح ہے جو شعلے کی آنچ سے اس قدر نرم ہو جائے کہ جدھر چاہو موڑ لو۔ یہ شعلہ
آدمی کا بکھراؤ
سی سی یو میں کامران سرور کو کئی گھنٹے قبل لایا گیا تھا مگر اَبھی تک اُس کے دِل کی اُکھڑی ہوئی دھڑکنیں واپس اَپنے معمول پر بیٹھ نہ پائی تھیں۔ وہ اَپنے حواس میں نہیں تھا تاہم ڈاکٹر قدرے مطمئن ہو کر یا پھر اُکتا کر دوسرے مریضوں کی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔
برف کا گھونسلا
وہ غُصے میں جلی بُھنی بیٹھی تھی۔ اِدھر اُس نے چٹخنی کھولی ‘میں نے گھر کے اندر قدم رکھا‘ اُدھر وہ مجھے پر برس بڑی۔ بچیاں جو مجھے دیکھ کرکھِل اُٹھی تھیں اور میری جانب لپکنا ہی چاہتی تھیں ‘اِس متوقع حملے میں عدم مداخلت کے خیال سے‘ جہاں تھیں وہیں
گانٹھ
عصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔ یا پھر شاید ‘پہلے سے پڑی گرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔ کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا
آخری صفحہ کی تحریر
جب پہلا خون ہوا تھا تو اس نے لہو کا ذائقہ چکھا تھا؛ بہت کڑوا کسیلا تھا۔ سارا محلہ صحن میں امنڈ آیا تھا۔ نعش کو کندھوں پر اٹھا کر سارے شہر میں پھرایا گیا تھا۔ جب نعش کی خوب نمائش ہو چکی تو چیرویں قبر کھودی گئی ۔ سفید کفن میں لپیٹ کر نعش کو
پارہ دوز
(تین پارچے: ایک کہانی) پہلا پارچہ اس روز تو میری آنکھیں باہر کو ابل رہی تھیں۔ بے خوابی کا عارضہ میرے لیے نیا نہ تھا تاہم پہلے میں مسکّن ادویات سے اس پر قابو پا لیا کرتا تھا ‘یوں نہیں ہوتا تھا کہ ادل بدل کر دوائیں لینے سے بھی افاقہ نہ ہو۔ مگر
شاخ اشتہا کی چٹک
اسے قریب نظری کا شاخسانہ کہیے یا کچھ اور کہ بعض کہانیاں لکھنے والے کے آس پاس کلبلا رہی ہوتی ہیں مگر وہ ان ہی جیسی کسی کہانی کو پالینے کے لیے ماضی کی دھول میں دفن ہو جانے والے قصوں کو کھوجنے میں جتا رہتا ہے۔ تو یوں ہے کہ جن دنوں مجھے پرانی کہانیوں
پارینہ لمحے کا نزول
سولہ برس سات ماہ پانچ دن دو گھنٹے اکیس منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہو چلے تھے اپنے لیے اس کے ہونٹوں سے پہلی بار وہ جملہ سنے جو سماعتوں میں جلترنگ بجا گیا تھا مگر دِل کے عین بیچ یقین کا شائبہ تک نہ اتار سکا تھا۔ ایسے جملوں پر فوری یقین کے لیے کچی عمر کی جو
کہانی اور کرچیاں
واصف تو بس مجھے اپنی نئی کہانی سنانے آیا کرتا تھا۔ مگر اب کے ملا تویوں کہ اس کے ہاتھ میں کسی نئی کہانی کا مسودہ نہیں تھا۔ کہانی لکھ چکنے کے بعد ‘اس کے چہرے پر جو آسودگی ہوتی تھی‘ وہ بھی نہ تھی۔ وہ آیا اور چپ چاپ میرے سامنے بیٹھ گیا۔ میں نے
معزول نسل
جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ سب سے چھپ کر گاؤں میں داخل ہو گی، چپکے سے صحن میں قدم رکھے گی۔ پنجوں کے بل چلتی ہوئی اپنی ماں جائی صفو کے عقب میں جا کھڑی ہوگی اور ہولے سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھے گی: ’’بوجھو تو میں
لوتھ
اُس کی ٹانگیں کولہوں سے بالشت بھر نیچے سے کاٹ دِی گئی تھیں۔ ایک مُدّت سے اُس نے اپنے تلووں کے گھاؤ اپنے ہی بیٹے پرکُھلنے نہ دئیے تھے۔۔۔ ضبط کرتا رہا اور اُونچی نیچی راہوں پرچلتا رہا تھا۔۔۔ مگر کچھ عرصے سے یہ زخم رِسنے لگے تھے اور چڑھواں درد گھٹنوں
بھرکس کہانیوں کا اندوختہ آدمی
ادھر ‘یہاں میں ایک ایسے ریٹائرڈ شخص کے بارے میں گمان باندھنا چاہوں جسے اپنے بیوی بچوں سے محبت ہو‘ جسے وہ بھی چاہتے ہوں مگر وہ ان سے اس خیال سے الگ ر ہے کہ یوں زیادہ سہولت سے رہا جا سکتا ہے اور خوش بھی۔ یقین جانیے ‘مجھ سے ایسا گمان باندھنا ممکن نہیں
آئینے سے جھانکتی لکیریں
میں اپنی نگہ میں سمٹ کر بھدی چھت سے پھسلتی دیوار تک آپہنچی تھی۔ میں نیچے آ رہی تھی یا دیوار اوپر اٹھ رہی تھی؟ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو رہا تھا۔ اور جو کچھ ہو رہا تھا وہ میرے باطن کے کٹورے کو اطمینان کے شیریں پانیوں سے کناروں تک بھر رہا تھا۔ باطن
تکلے کا گھاؤ
کاغذ پر جُھکا قلم کمال محبت سے گزر چکے لمحوں کی خُوشبو کا متن تشکیل دینے لگتا ہے: ’’ابھی سمہ بھر پہلے تک دونوں وہ ساری باتیں کر رہے تھے ٗجو دنبل بن کر اندر ہی اندر بسیندھتی ٗپھولتی اور گلتی رہیں یا پھر اَلکن ہو کر تتّے کورنوالے کی طرح حلق میں ٹھہری
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-