- کتاب فہرست 184416
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4296 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4828
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
محمد مجیب کے مضامین
غالب کا اردو کلام
مرزا غالب نے لکھا ہے کہ انہیں شعروشاعری کا شوق اسی زمانہ سے ہوا جب سے کہ وہ ’’لہوولعب‘‘ اور ’’فسق وفجور‘‘ میں پڑ گئے، گویا یہ شوق ان کی شخصیت کے فروغ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھی۔ ا ن کے ابتدائی کلام کے نمونے ہمارے سامنے ہوتے اور انہیں وقت تصنیف
دنیا کی پہلی تہذیبیں
دنیا کی کہانی میں حضرت آدم ؑ کا زمانہ وہ وقت ہے جب آدمی جانور سے انسان ہوا۔ سائنس کے پجاری حضرت آدم ؑ کو نہیں مانتے۔ لیکن یہی لوگ جب پرانی قوموں کے عقیدوں اور دھرم کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے بزرگ کا نام ملتا ہے جنہوں
تہذیب کیا ہے؟
سیاسی تاریخ کا موضوع قوموں کی تنظیم، حکومتوں کی کارگزاری اور خارجی سیاست کی کاروائیاں ہیں۔ اسے شخصیتیں اور کارنامے، ترقی اور کامیابی یا زوال اور تباہی کی مثالیں بہت مؤثر اور سبق آموز بنا دیتی ہیں۔ لیکن تاریخ کی ساری حقیقت اس میں بیان نہیں ہو جاتی
فارسی عربی رسم الخط
(اب جبکہ اردو میں کمپیوٹر چھپائی عام ہوتی جا رہی ہے اس مضمون کی حیثیت تاریخی اور معلوماتی ہے۔) (م۔ ذ) ’’میراقلم معجزے دکھاتا ہے، میرے لفظ کی ’شکل‘ کو اپنے پر فخر ہے کہ وہ ’معنی‘ سے برتر ہے۔ میرے حروف کی ہر گولائی کی خوبی کا گنبد آسماں بھی معترف
غالب کا زمانہ
مرزااسداللہ خاں غالب ۲۷ دسمبر ۱۷۹۷کوپیداہوئے۔ ستمبر۱۷۹۶ءمیں ایک فرانسیسی، پروں، جواپنی قسمت آزمانے ہندوستان آیاتھا، دولت راؤسندھیا کی ’شاہی فوج‘ کا سپہ سالار بنادیاگیا۔ اس حیثیت سے وہ ہندوستان کا گورنربھی تھا۔ اس نے دہلی کا محاصرہ کرکے اسے فتح کرلیا
امراؤ جان ادا
پچیس برس پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ادبی رسالے میں مرزا رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ پرایک تبصرہ پڑھا۔ اسے پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ یہ ناول ایک طوائف کی داستان حیات ہے۔ مجھے جس پر حیر ت ہوئی وہ تھی تبصرہ نگار کی بے پناہ تعریف۔ (اورتبصرہ نگار بھی) ایک
لال قلعہ
کسی چیز پر اتنی اداسی نہیں برستی جتنی کسی ایسے مکان پر جس میں رہتا تو کوئی نہیں لیکن لوگ اسے دیکھنے چلے آتے ہیں۔ کسی ایسے محلے کی اداسی جو یادگار بن کر رہ گیا ہو، چاہے قومی یادگار سہی، اتنی ہی زیادہ یا کم ہوتی ہے جتنی کہ کسی زمانے میں اس کی شان وشوکت
مشرق و مغرب
شروع کے تین چار ہزار برس میں آدمی نے جو تہذیبی دولت کمائی، اپنے آپ کو جس طرح سدھارا اوراپنی زندگی کو سنوارا، وہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کے بعد کی جو تاریخ ہے، اس میں یہی سرمایہ دوبارہ کاروبار میں لگایا گیا، کچھ نیا مال لین دین میں آیا، کچھ نئی منڈیاں
ادب اور ادیب کا مقصد
ہمارے زمانے کے عجائبات میں سے ایک بہت ہی عجیب چیز ہے یہ مقصد کی بحث۔ جس وقت سے ہمیں کچھ شعور ہوتا ہے ہم ہر چیز کا، ہر کام کا، ہر خیال کا مقصد پوچھنے لگتے ہیں۔ جب تک ہم میں غور کرنے کی صلاحیت رہتی ہے ہم مقصد کی جستجو میں رہتے ہیں اور جب خود مایوس ہو جاتے
دنیا کی کہانی
دنیا کی کہانی ایک عجیب داستان ہے کہ جس کی زبانی بیان ہوا سی کے مطلب کی ہو جاتی ہے۔ وہ بہت لمبی ہے اور بہت چھوٹی بھی، بہت سیدھی سادی اور بہت الجھی ہوئی بھی۔ وہ ہمیں دلاسا بھی دیتی ہے اور اداس بھی کرتی ہے، لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی ہے۔ وہ ان کہانیوں
امیر خسرو
مؤرخین امیر خسرو کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، مجھے تو وہ غیرمتعلق ہی سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ ۱۲۵۳ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ مؤرخین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے ترک خاندان سے تھے جسے منگولوں
سیکولرازم اور تصوف
فکرونظر کی دنیا میں آج کل جو مسلمہ فیشن ہیں ان میں سے ایک سیکولرازم بھی ہے۔ بہت کم لوگ صحیح صحیح جانتے ہیں کہ سیکولرازم ہے کیا، سوائے اس کے کہ یہ کوئی مذہب نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیکولرازم کا دم تو بھرتے ہیں کیونکہ اسے ایسی بات سمجھا
تصوف ہندوستان میں
جب ایسے لوگوں کی بات کی جائے جن کی بقا اور اثر کا دارومدار اس بات پر ہو کہ انہوں نے حق کی تلاش کو روح کی ایک سنجیدہ اور پرجوش مہم بنا لیا تھا تو ضروری ہوتا ہے کہ ان ہی کے لب ولہجے میں بات کی جائے، وہ لب ولہجہ جس سے عقل سلیم یا کامن سینس کو ٹھیس لگتی
تہذیب
وہ لوگ جن کے پاس اور سب چیزیں ہوتی ہیں، یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں تہذیب بھی ہے اور وہ لوگ جن کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا بس اس بات پر فخر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس تو تہذیب ہے۔ وہ فنکار جس کا موضوع گفتگو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رہتا ہے، وہ ادیب جو
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-