تخلص : 'تسلیم'
اصلی نام : منشی امیر اللہ تسلیم
پیدائش :فیض آباد, اتر پردیش
وفات : 27 May 1911
آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں
کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے
تسلیم لکھنوی
احمد حسین نام، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے۔تخلص تسلیم،۲۰۔۱۸۱۹ء میں منگلیسی نواح فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ فن خوشنویسی کے استاد تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد تھے۔ ان کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ان کی علاحدگی کے بعد تسلیمؔ ان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ واجد علی شاہ کے عہد میں ان کی پلٹن توڑ دی گئی اور وہ بے کار ہوگئے۔ اس کے بعد وہ شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو گئے اور ۳۰؍روپیہ ماہوار ملنے لگے۔زوال سلطنت کے بعدیہ رام پور چلے گئے ،وہاں انھیں کوئی ملازمت نہ ملی۔ یہ لکھنؤ واپس آئے اور نول کشور کے مطبع میں ملازم ہوگئے۔جب نواب علی خاں ریاست کے حکمران بنے تو ان کے ایما پر یہ رام پور آگئے جہاں ڈپٹی انسپکٹر ، مدارس مقرر ہوئے۔کلب علی خاں کی رحلت کے بعدٹونک ہوتے ہوئے منگرول پہنچے۔ کچھ دنوں بعد نواب حامد علی خاں والئ رام پور کی طلبی پر پھر رام پور آگئے اور ازراہ قدر دانی چالیس روپیہ پنشن مقرر ہوگئی جوان کو آخری وقت تک ملتی رہی۔تسلیم نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ افلاس اور تنگ دستی میں بسر کیا۔ ۲۸؍ مئی ۱۹۱۱ء کو لکھنؤ میں ۹۶برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار چھوڑیں۔ حسرت موہانی انھی کے شاگرد تھے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:178