منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی کے اشعار
ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی تو ہے ہر بات پر گالی
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو
چار بوسے تو دیا کیجیے تنخواہ مجھے
ایک بوسے پہ مرا خاک گزارا ہوگا
جو تیرے گنہ بخشے گا واعظ وہ مرے بھی
کیا تیرا خدا اور ہے بندہ کا خدا اور
نہ لڑاؤ نظر رقیبوں سے
کام اچھا نہیں لڑائی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ملک الموت موذن ہے مرا وصل کی رات
دم نکل جاتا ہے جب وقت اذاں آتا ہے
ہدایت شیخ کرتے تھے بہت بہر نماز اکثر
جو پڑھنا بھی پڑی تو ہم نے ٹالی بے وضو برسوں
آنکھ اپنی تری ابرو پہ جمی رہتی ہے
روز اس بیت پہ ہم صاد کیا کرتے ہیں
کافر ہو پھر جو شرع کا کچھ بھی کرے خیال
جب جام بھر کے ہاتھ سے یار اپنے دے شراب
قشقہ نہیں پیشانی پہ اس ماہ جبیں کے
اللہ نے یہ حسن کے خرمن کو ہے چانکا
شاید مزاج ہم سے مکدر ہے یار کا
لکھا ہے اس نے ہم کو بہ خط غبار خط
ہجوم رنج و غم و درد ہے مروں کیوں کر
قدم اٹھاؤں جو آگے کشادہ راہ ملے