Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Murad Saeedi's Photo'

مراد سعیدی

1923 - 1989 | ٹونک, انڈیا

استاد شاعر

استاد شاعر

مراد سعیدی کا تعارف

تخلص : 'سعیدی'

اصلی نام : حافظ عماد الدین خاں

پیدائش : 21 Jul 1923 | ٹونک, راجستھان

وفات : 24 May 1989 | ٹونک, راجستھان

راجستھان ابتداء سے ہی ایک اہم اور تاریخی صوبہ رہا ہے جسے پہلے راجپوتانہ بھی کہا جاتا تھا اور کئی چھوٹی بڑی خود مختار ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اس صوبے میں بڑی اور طاقتور ریاستیں مثلاً میواڑ، مارواڑ اور جے پور تھیں، وہیں ٹونک نام کی ایک ریاست انیسویں صدی کے اوائل میں (۱۸۱۷)  وجود میں آئی۔ اس ریاست کے بانی نواب امیر خاں تھے۔ یہ راجستھان کی واحد مسلم ریاست تھی جو آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی علم و ادب کا گہوارہ مانی جاتی رہی ہے۔ گو کہ اب یہ ریاست نہیں ہے لیکن یہاں آج بھی آزادی سے پہلے کے ادبی اثرات عام طور پر نظر آتے ہیں۔ حالانکہ وہ اگلے زمانے جیسے عالم و فاضل اور ملک بھر میں شہرت حاصل کرنے والے شعراء نہیں ہیں لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ ان اساتذہ کی یادگاریں آج بھی اس سرزمین سے دنیائے ادب میں اپنی شعاعیں بکھیر رہی ہیں۔ا یسی ہی شخصیات میں ایک نام مرادؔ سعیدی کا ہے۔ جنھوں نے ریاستی دور کی ادبی روایات کو بھی زندہ رکھا اور جدید دور کے تقاضوں سے اپنے فن سے شعری ادب کو اونچائیاں دینے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی معاصرین شعراء کو معیاری شاعری کی جانب راغب کیا۔ مرادؔ سعیدی ان شعراء میں سے ہیں جنھوں نے ریاستی دور بھی دیکھا اور اس دور کے اساتذہ کا فیض بھی حاصل کیا۔
ولادت و تعلیم :
مرادؔ سعیدی جن کا اصل نام حافظ عماد الدین خاں ہے، ۲۱؍ جولائی ۱۹۲۳ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدکا نام مفتی سراج الدین خاں تھا۔ ابتدائی تعلیم گھریلوں ماحول میں ہوئی۔ بعد میں جامعہ اردو علی گڑھ سے، ادیب اور ادیب ماہر کے امتحانات پاس کیے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد سرکاری ملازمت کی کوشش کی ا ور محکمۂ آبکاری میں ملازم ہو گئے۔ اسی محکمہ سے رٹائر ہوئے اور ۲۴؍ مئی ۱۹۸۹ء میں انتقال کیا۔ مرادؔ سعیدی کے والد مفتی سراج الدین کا اصل وطن ’’سوات‘‘ (موجودہ پاکستان) تھا۔ وہ نواب ابراہیم علی خاں کے عہد میں ٹونک تشریف لائے تھے۔ ان کی علمیت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے نواب صاحب نے انھیں شعری عدالت کا ناظم مقرر کر دیا تھا۔ اس طرح ٹونک میں اس خاندان کی بہت توقیر و آبرو تھی۔
یوں تو جوانی کی عمر سے ہی مرادؔ سعیدی کو شاعری سے رغبت تھی، یہی ذوق و شوق انھیں صولتؔ ٹونکی اور بسملؔ سعیدی جیسے عظیم شعراء کی صحبت میں لے گیا جہاں انھوں نے زانوئے ادب تہ کئے اور بہت جلد اپنے معاصر شعراء میں ممتاز نظر آنے لگے۔ پہلے صولتؔ ٹونکی سے اصلاح لی پھر بسملؔ سعیدی (۱۹۷۶۔۱۹۰۱ئ) کی شاگردی میں آ ئے توان کی نسبت سے مرادؔ سعیدی لکھنے لگے۔ کم و بیش تیس سال تک ان کی خدمت میں رہے، یہ عرصہ کسی بھی فن کار کو عروج پرپہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا، اسی دوران ملک کی آزادی اور تقسیم ہند جیسے واقعات رونما ہوئے۔ جنھوں نے انسان کی روح تک کو جھنجھوڑدیا۔ کچھ عرصہ تک ادب پر ایک جمود سا چھایا رہا۔ رفتہ رفتہ ماحول بدلا ، زندگی پھر سے ڈگر پر آنے لگی اور شعر و سخن کی محفلیں پھر سے سجنے لگیں۔ اس طرح از سرِنور اردو شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
ادبی خدمات:
اگر مرادؔ سعیدی کے ادبی سرمایہ پر نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل فہرست مرتب ہوتی ہے:
۱۔ گلدستۂ مرادؔ (شعری مجموعہ ) ۲۰۱۷ئ مرتّب شوقؔ احسنی
۲۔ عزیزوں کے درمیاں (شعری مجموعہ) ۲۰۲۲ئ مرتّب سہیل پیامیؔ
۳۔ غیرتِ گلزار (مجموعۂ چہار بیت) ۲۰۲۴ئ مرتّب ڈاکٹر سعادت رئیس
۴۔ مرادؔ سعیدی : شخص اور شاعر (مجموعۂ مضامین) ۲۰۲۴ئ مرتّب سید ساجد علی ٹونکی

Recitation

بولیے