- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مشرف عالم ذوقی کے افسانے
باپ اور بیٹا
(۱) باہر گہرا کہرا گر رہا تھا۔۔۔ کافی ٹھنڈی لہر تھی۔ میز پر رکھی چائے برف بن چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد باپ کے لب تھرتھرائے تھے۔ ’’میرا ایک گھر ہے‘‘ اور جواب میں ایک شرارت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔ ’’اور میں ایک جسم ہوں۔۔۔ اپنے آپ سے صلح کر لو گے تب بھی
فزکس، کیمسٹری، الجبرا
(اپنی بیٹی صحیفہ کے نام۔۔۔ کوئی نہ جانے۔۔۔ تم کو کیسے کیسے سوچا میں نے۔۔۔ کیسے کیسے جانا میں نے۔۔۔!) (1) ’’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ۔۔۔‘‘ ’’لیکن کیوں پاپا۔‘‘ ’’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی
صدی کو الوداع کہتے ہوئے۔۔۔
(1) ’’لیکن اس کا حل کیا ہے؟‘‘ پاپا کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے، لہجے سے جذبات غائب۔۔۔ چہرہ ذرا سا سکڑ گیا تھا۔ ماں کے رویے میں کھوکھلے قسم کی سختی تھی۔۔۔ ’’آنے والے مہمان کو آنے ہی نہیں دیا جائے۔۔۔ یعنی۔۔۔‘‘ یہ ایک دو ٹوک فیصلہ تھا۔۔۔
بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت
تب ڈرامہ کی ریہرسل شروع نہیں ہوئی تھی۔ ریہرسل سے ایک مہینہ قبل یہ ’’حادثہ‘‘ پیش آیا تھا اگر اسے حقیقت میں ’’حادثہ‘‘ کا نام دیا جائے تو! لیکن۔۔۔ اس ’’حادثہ‘‘ سے پہلے بھی وہ کہیں ٹکرائی تھی۔ کہاں؟ سمینار میں۔ بس، ایک سرسری سی ملاقات تھی۔ وہ بھی
وارن ہسٹنگز کی ٹوپی
ٹوپی کی قسمت ایسے بھی کھل سکتی ہے، محمد علی بھائی نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ چھوٹی بڑی، ترچھی، دو پلی، فیروزآبا دی، حیدرآبادی، لکھنوی، ملتانی، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر اسٹائل ٹوپیوں کی اتنی بڑی کوئی ’’ڈیل‘‘ بھی ہو سکتی ہے، محمد علی بھائی کے لئے
لیبارٹری
گندہ تالاب، کیکڑے اور وہ یہ قیاس لگانا بہت آسان ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہوں گے۔۔۔ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کہیں، کسی بھی طرح، کسی بھی حال میں۔۔۔ لیکن معاف کیجئےگا۔ اُنکی پیدائش کے عمل کو کسی بھی طرح میں ’’کلوننگ
بیٹی
(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے، کہ یہ کہانی بھی اُسی کے تصور سے پیدا ہوئی تھی) خوف بیٹی باپ سے ڈرتی تھی، اس کے برخلاف ماں کو اپنا دوست سمجھتی تھی۔۔۔ ماں بیٹی سے ڈرتی تھی، اس لئے کہ بیٹی دنوں دن تاڑ جتنی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ باپ کو بیٹی سے بالکل
مجھے اسے زندہ رکھنا ہے
جیسا کہ گھر والے بتایا کرتے تھے۔ وہ رات بہت بھیانک تھی جب میں پیدا ہوا۔ بہت بھیانک۔۔۔ جیسے خوف و دہشت کے ماحول میں کوئی چیخ اٹک گئی ہو۔ نہیں، اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور جیسے سب بچے روتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔ میں بالکل نہیں رویا تھا۔ اس لئے پہلے تو
مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں
فیروز اور مادام ایلیا کے درمیان ایک بے ربط مکالمہ ’’دو نالی بندوق اور ڈریسنگ گاؤن۔۔۔‘‘ اس نے حامی بھری۔ سرکو ایک ذرا سی جنبش دی۔ گو ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی تن گئی تھیں اور گول گول چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی سرخیاں کچھ ایسے پھیل
بازار، طوائف اور کنڈوم
بازار پہلے بازار اِس طرح نہیں پھیلا تھا۔ وہ بازار کے، اِس طرح پھیلنے پر اداس تھا۔ پہلے بازار میں اتنی بھیڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔ پہلے بازار میں اِتنی ڈھیر ساری دکانیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے دکانوں میں اِتنے سارے کام کرنے والے مزدور یا ’’چیزیں‘‘
ڈراکیولا
مصنف کا بیان ’’میں ہر بار تمہارے گھر کی الگنی پر گیلے کپڑے کی طرح ’’ٹنگی‘‘ رہی۔ تم میرے لئے مٹھی مٹھی بھر دھوپ لاتے تھے۔ اور میں تھی، برف جیسی یخ۔۔۔ دھوپ تمہاری میٹھوں سے جھر جھر جاتی تھی۔۔۔ سوکھتی کیسے میں۔۔۔؟ تمہارے ہی گھر کی الگنی پر ٹنگی رہی۔
فریج میں عورت
(1) وہ چپ چاپ اس بات کا اعتراف کر لیتا تھا۔ ’’ہاں، میرے فریج میں ایک عورت ہے‘‘۔ فریج میں عورت؟‘‘ ’’کیوں۔ عورت فریج میں نہیں ہو سکتی۔ میں جب چاہوں، اسے فریج سے باہر بلا لیتا ہوں۔ کمرے میں یار، اس کے ساتھ ہنستا ہوں۔ باتیں کرتا ہوں۔ دل بہلاتا ہوں۔‘‘ * فریج
پیرامڈ
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ کمرے میں موت جیسا سناٹا پسرا تھا۔ موت جیسا نہیں۔ کمرے میں چپکے سے ایک ’’موت‘‘ آ کر گزر گئی تھی۔ جیسے تیز ہوا چلتی ہے۔۔۔ سائیں سائیں۔۔۔ جیسے لو یا جھکڑ چلتے ہیں۔۔۔ جیسے ریگستانوں میں ریت کی آندھی بہتی ہے۔۔۔ اور اس آندھی
بھنور میں ایلس
(۱) ادھر آنکھیں بوجھل ہوئیں، ادھر خواب کے در کھل گئے۔۔۔ پھر جیسے کسی نے انتہائی معصومیت سے صدا لگائی ہو۔۔۔ ’’ایلس آنکھیں کھولو۔۔۔ آنکھیں کھولو نا ایلس۔۔۔‘‘ ’’جاؤ نہیں کھولتی۔ ابھی مزے مزے کے سپنے جو دیکھ رہی ہوں۔۔۔ آنکھیں کھلیں تو سپنا ہٹ ٹوٹ جائےگا۔۔۔‘‘
آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے
(1) وہ بہت آرام سے باتیں کر رہا تھا۔ اتنے آرام سے ، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن شاید جو ’’حادثہ‘‘ بھی ہوا تھا، کوئی زلزلہ جیسا بھیانک المیہ بھی اتنا خوفناک نہیں ہو سکتا تھا۔ (یہ میرا ماننا ہے۔ میں کون۔۔۔؟ میں یعنی کہانی کار) لیکن وہ جیسے ان تمام امکانات
مرد
(الف) مسز گروور اور تانیہ ایک منظر دیکھتی ہیں، ’’وہ ہنس رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ ناگواری سے کہا گیا۔۔۔ ’’ہوتا ہے !‘‘ ’’اب انہوں نے چھریاں سنبھال لی ہیں۔‘‘ اِدھر ایک کپکپی طاری کر دینے والی کیفیت۔۔۔ جواب میں کہا گیا۔۔۔ ’’اور دیکھو‘‘۔ ادھر
دادا اور پوتا
(اپنے پانچ سالہ بیٹے عکاشہ کے لئے جس کی خوبصورت اور ’’خطرناک‘‘ شرارتوں سے اس کہانی کا جنم ہوا) (۱) کچھ دنوں سے بڈھے اور پوتے میں جنگ چل رہی تھی۔ بڈھا چلاتا رہتا تھا اور پوتا اس کی ہر بات نظرانداز کر جاتا تھا۔ ’’سنو، میرے پاس وقت ہیں۔‘‘ ’’کیوں
انکیوبیٹر
(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے۔۔۔ جو دو برس کے سفر میں اتنا کچھ دے گئی، جو پوری زندگی پر بھاری ہے۔) نرسری سیمون د بووار(Simone De Beauvoir) نے کہا تھا، ’’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔‘‘ لیکن، نیل پیدا کہاں ہوئی تھی۔ نیل تو بن رہی تھی۔ نیل
نور علی شاہ کو اداس ہونے کے لئے کچھ چاہئے
جو سچ تھا، وہ تواریخ کے پنوں میں چھپ گیا نہیں، چھپا دیا گیا۔ تواریخ کے گدلے نالے میں۔۔۔ اور نالے سے اٹھتی ہوئی بدبو سونگھنے والے بھلا کیسے سوچ پائیں گے کہ کبھی سلطنت اور شہنشاہیت کے گذرے قصوں میں ان کی بھی ساجھے داری رہی ہوگی۔ نہیں نور علی شاہ۔ اس جھانسے
غلام بخش
وہ غلام ملک میں پیدا ہوا۔ اس لئے باپ نے اس کا نام ہی غلام بخش رکھ دیا۔ مجھے یقین ہے، مرنے سے پہلے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ کچھ بتانا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی وہ مر گیا۔۔۔ وہ بوڑھا تھا۔۔۔ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔ اسے مرنا تھا اور
لینڈ اسکیپ کے گھوڑے
(پیارے دوست اس۔ ال۔ حسین کے نام) سب سے بری خبر ’’نہیں، اس گھوڑے کے بارے میں نہیں پوچھئے۔ برائے مہربانی۔‘‘ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ برائے مہربانی اور جیسا کہ میں نے کہا، آپ یقین کیجئے۔ وہ گھوڑا۔ با۔ بابا۔ ایک بے حد دلچسپ کہانی اور جیسا کہ میں
کاتیائن بہنیں
ایک ضروری نوٹ قارئین! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مستقبل مصنف طے کرتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے، اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتی جاتی ہے اور حقیقت میں مصنف
حیران مت ہو سنگی مترا
باہر نکلتے ہی سنگی مترا کو ابھتوش کی بات یاد آنے لگی۔ سب کچھ نہ بدلے تب بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ ہاں کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ سنگی مترا جیسے اپنے آپ سے بد بدائی۔ دیکھا نا، بھول گئی کہ وہ کس لئے باہر نکلی تھی؟ کس کام سے؟ یہ غلط بات ہے۔ ذرا دیر میں سب بھول
بوڑھے جاگ سکتے ہیں
اور وہ واقعہ ہو گیا جس کے بارے میں پون لال سوچتے تھے کہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔ لیکن کیوں نہیں ہونا چاہئے تھا، کا جواب فی الحال ان کے ان کے پاس نہیں تھا۔۔۔ آخر کیوں نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔؟ وہ بہت دیر تک بلکہ کہنا چاہئے کہ دوسرے بہت سے سوالوں سے فارغ ہوکر
اکیلے آدمی کی موت
عزیزالدین دیر تک اپنے کمرے میں ٹہلتے رہے۔ صبح سے موسم بھی خراب تھا۔ پرانی کھانسی کی شکایت بھی تھی۔ چلتے چلتے کھانسنے لگتے۔ سانس پھول جاتی تو کرسی پر کچھ دیر کے لئے سستانے بیٹھ جاتے۔ کوئی تو نہ تھا اس بڑے سے گھر میں ان کے سوا۔۔۔ اور جب سے اُن کی نظر اس
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-