- کتاب فہرست 183917
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4294 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4829
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
نعیم بیگ کے افسانے
یو ڈیم سالا
پام ڈیرہ بیچ کورنش پر شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ہجوم کورنش کی دیوار کے ساتھ ساتھ چہل قدمی میں مصروف تھا۔ سورج دور سمندر کے اس پار ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر آہستہ آہستہ آسمان کی وسعتوں پر نارنجی رنگ بکھیرتا ہوا غروب ہو رہا تھا۔
آتشیں بلاؤز
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم چھوٹے سے قصبے کی گندی سی گلی میں کرایے کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہے تھے۔ ابا کی تیزی سے ڈھلتی عمر کو دیکھتے ہوئے اماں کو روز سمجھاتا، کہ اب اِس قصبے میں یوں گزارا نہیں ہو سکے گا۔ دونوں چھوٹے جیسے تیسے
سلیکون وائف
(عہد جدید کی ایک کہانی انسانی نفسیات کے تناظر میں) ابھی پچھلے دنوں میرا عزیز ترین شاعر دوست جعفری جو مجھ میں عمر میں کافی چھوٹا ہے، کہنے لگا، ایک مسٗلہ ہے مجھے آپ سے وقت چاہیے۔ میں نے کہا چلے آؤ۔ اور ہاں اپنی تازہ ترین نظمیں بھی لیتے آنا، تاکہ میں
طوفان کے بعد
بہار کے موسم کو شروع ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ غیر متوقع طوفانی بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ دار الحکومت میں طوفان سے بچاؤ پر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں، محکمہ موسمیات اگلے تین روز تک شدید طوفانِ بردوباراں اور سیلاب کی پیشین گوئی کر چکا تھا۔
مارشل لاء
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ وہ اپریل 1983ء کے اوائل کی ایک یادگار اور حیران کن شام تھی۔ میں اپنی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا، امنگیں نہ صرف جوان تھیں، بلکہ ان کے اندر پارہ نما پھیلاؤ اس قدر توانا اور غالب آ چکا تھا، کہ جہاں ذرا سی سہولت ملتی یہ
بساط بھر دنیا
پہاڑوں سے اچھلتا جھاگ پھیلاتا نیچے کی طرف گول گول چکنے پتھروں پر بہتا شفاف پانی جب پرسکون ندی میں آن ملتا ہے، تو میرے خیال میں اسے خود بھی پرسکون ہوجانا چاہیے، لیکن میں نے ایسا کم ہی د یکھا ہے۔ اس شوریدہ سر بہتے پانی کو پرسکون میدانی فضا میں ندی کی
تاریک چوک کا دودھیا لیمپ
شام ڈھل چکی تھی۔ عالمی ادبی کانفرنس دار الحکومت کے فائیو سٹار ہوٹل سے منسلک نئی سرکاری عمارت میں زور و شور سے جاری تھی۔ ادب کے متوالے شاعر و ادیب و نقاد چہروں پر مسکراہٹیں سجائے ایک دوسرے سے معانقہ و مصافحہ کرتے، رسم و راہ اور ملاقاتیں کرنے کو موجود
شمال کی جنگ
ڈئیر مارتھا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ میرے خطوط تم تک پہنچ رہے ہونگے۔ دراصل جس شخص کو میں یہ خطوط پوسٹ کرنے کو دیتا ہوں وہ ایک نادار بنسری نواز پٹھان لڑکا ہے۔ اس کی ٹانگ گزشتہ جنگ میں بم شیل لگنے سے کٹ گئی تھی۔ اب یہاں چھوٹے موٹے کام کر کے گزارہ کرتا ہے۔
پیچھا کرتی آوازیں
لڑکیوں نے کھنکتے قہقہوں کے درمیان اسے بالآخر کمرے میں دھکیل دیا گیا۔ موسم کی خنکی اور مہکتی مسکراتی فضا کے باوجود اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ گھبراہٹ اسکے چہرے سے عیاں تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسکی کپکپاتی ٹانگیں جلد ہی اسکے اوپر کے دھڑ کو سہارا
ڈیپارچر لاؤنج
ایک ہاتھ میں اعلیٰ چمڑے کا براؤن بیگ دوسرے میں پاسپورٹ اور دیگر سفری کاغذات تھامے ڈاکٹر بدرالدین ہادی اپنی قدرے پھولی سانس کے ساتھ وسیع و عریض بزنس کلاس ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ایک طرف کو کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی نشست کے لیے کوئی مناسب جگہ
مقدس سلطنت 2020
(تین ایکٹ شارٹ پلے) ایکٹ ۔ ۱ لائٹ فیڈ ان (دارلحکومت میں بادشاہ کا موتی محل اور معمول کی درباری شام میں جگمگ کرتے وسیع و عریض ہال کے چکنے اور چمکدار فرش پر ایرانی و ترکی ریشمی سلکی قالین بچھے ہوئے ہیں۔ سامنے ایک بڑے خوبصورت اسٹیج پر مخملی کرسی
خط استوا
کمرے کو روشن کرتی سورج کی آخری کرن بھی آہستگی سے کھڑکی کی اوٹ میں معدوم ہو گئی۔ تاہم شام کے دھندلکے ابھی کچھ دور تھے اور دھوپ کو ابھی لان میں مزید رہنا تھا کمرے میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ سیما نے جب کمرے کے اندر قدم رکھا تو مجھے اس کی مخصوص قدموں کی
جہاز کب آئیں گے؟
پلوا شاہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی، جیسے پہاڑوں کے دامن میں شفاف چشمے سے بہتے پانی میں ہاتھ ڈالے اس کی ٹھنڈک سے محظوظ ہو رہی ہو کہ اوپر سے اچانک پتھر لڑھکنے لگ جائیں۔ در اصل اسے دھماکے کی آوازنے گہری نیند سے جگا دیا تھا۔ اس
لکڑی کی دیوار
میں اسکی صرف آواز سن رہا تھا اور وہ مسلسل بولے جارہا تھا۔ ’’فادر۔۔۔‘‘ اس نے پھر کہنا شروع کیا۔ ”میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مجھ سے پیار کرے، مجھے چاہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ صرف مجھے یہ احساس دے دے کہ وہ مجھے چاہتا ہے۔ میری محبت، میری زندگی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-