سید محمد شاکر نام ،ناجی تخلص عمدۃ الملک امیر خاں رکن دربار محمد شاہ کے نعمت خانے کے یہ بھی حاتمؔ کی طرح دروغہ تھے ۔ میاں آبروؔ کے معاصر تھے ۔ طبیعت میں ظرافت بے حد تھی ہر ایک کو ہنساتے تھے لیکن خود کم ہنستے تھے جس کسی سے خفا ہوجاتے فوراً ہجو لکھتے ۔ کریم الدین کہتے ہیں کہ میری رائے میں اگر وہ ہاجیؔ تخلص کرتے تو بہتر تھا جوان ہی تھے کہ انتقال کیا ۔ کلام ان کا ایہام گوئی سے پر ہے بلکہ آبرو کے بعد ایہام گوئی میں ان ہی کا نمبر سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ کلام میں اکثر پند و نصائح اور تجربات دنیا بھی ہیں کہیں کہیں ابتذال بھی ہے لفظی ہیر پھیر کی طرف توجہ اکثر رہتی ہے شاہ آبرو نے جہاں ان کے کلام کی تعریف لکھی ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے ۔ سخن سنجاں میں ہے گا آبروؔ آج نہیں شیریں زباں شاکر سری کا نادر شاہ کی چڑھائی اور محمد شاہ کے لشکر کی تباہی میں یہ خود مثال تھے اس وقت دربار دہلی کے رنگ شرفا کی خواری پا جیوں کی گرم بازاری اور اس پر ہندوستانیوں کی آرام طلبی اور ناز پروری کو ایک مخمس میں دکھایا ہے ۔