- کتاب فہرست 180666
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4462
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
نجمہ نکہت کے افسانے
وہ دونوں
آج پھر میں نے ان دونوں کو بالکنی میں کھڑے دیکھا تھا۔ بادل گھر آئے تھے اور ہلکی پھوار میں وہ دونوں ریلنگ پر جھکے نیچے دیکھ رہے تھے جہاں سڑک پر اکا دکا آدمی چھا تا سروں پر کھولے آہستہ آہستہ آ جا رہے تھے کبھی آپس میں کسی بات پر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کربڑی
اسی رہگذر پر
پاوشان نے شونا کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور مسکرا کے بولا ’’اس آسمان کو دیکھو شونا کس قدر نیلا ہے اور بادلوں پر شفق کا ہلکا سرخ رنگ چڑھ گیا ہے اور کہیں کہیں سفید چمکیلی جھلک وہ دیکھو۔ ادھر مغربی پہاڑی پر وہ۔ وہ۔‘‘ شونا نے اپنی بھدری نیم وا آنکھوں سے
پھر وہی صبح، پھر وہی شام
جلتی ہوئی موم بتیاں مکان میں عجیب سی پر اسرار روشنی بکھیر رہی تھیں اور وہ پلنگ پر چپ چاپ پڑی ٹالسٹائی کو پڑھتے ہیں بار بار چونک جاتی۔ معمولی سی چیز کو بھی کس قدر حسن کارانہ انداز بیان کی ضرورت ہے۔ فانوس میں جلتی ہوئی موم بتیاں ہوا کے جھونکوں سے جھلملانے
سیب کا درخت
درختوں، بیلوں اور پھولوں میں گھر ی ہوئی ڈیوڑھی کسی بوڑھی کمزور عورت کی طرح جھک آئی تھی۔ چھت کی بڑی بڑی مضبوط نائیں دیمک چاٹ رہی تھی۔ بارش نے زرد رنگ ڈالا تھا اور باہر ڈیوڑھی کی دیواروں پر کائی اگ آئی تھی۔ نواب میاں کی یہ ڈیوڑھی اپنے اندر بڑی کشش رکھتی
دور دیس سے
جانے کتنی مدت سے تمہیں خط لکھنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ اتنے لمبے چوڑے خط کے جواب کیلئے کتنے ورق لکھنے پڑھیں گے تب تک، تومنی بھی نیند سے چونک پڑے گی۔ اللہ جانے کیسے ڈراؤنے خواب ہوتے ہیں کہ منی گھبرا کے نیند میں مجھے ٹٹولنے لگتی ہے۔ میرے اوندھے سیدھے
آخری حویلی
ہائے یہ حویلی نہ ہوئی، پورے نو مہینے کا پیٹ ہو گیا جس کا بوجھ عورت کو سنبھالنا دوبھر ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ کمبخت حویلی بھی صمصام الدولہ کا بوجھ بنی پڑی تھی۔ ایک دو، نہ پورے پچاس کمرے تھے۔ مرّمت کروانا تو ایک طرف ،قلعی پھر دانا بھی بس کی بات نہ تھی جگہ
کھنڈر
اللہ جانے آپ نے وہ ڈیوڑھی دیکھی بھی ہے یا نہیں جہاں سے چوڑیوں والوں کی چھکا چھک روشنی پھینکتی ہوئی دوکانوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ وہیں راستے سے ذرا ہٹ کر صداقت نواز جنگ کی سفید دیواروں اور منقش ستونوں سے گھری ہوئی عظیم الشان ڈیوڑھی، لاتعداد، دروازوں
شبنم اور انگارے
اس نے کروٹ بدل کے چادر منہ پر کھینچ لی۔ سورج کی کرنیں کھڑکی کے اندر آ کے پھیل گئی تھیں اور وہ ان کی گری محسوس کر رہی تھی لیکن بستر چھوڑ کے اٹھنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا تھا اور ایک انجانی کسک دل کو اداس
پتھر اور کونپل
اس نے ہتھیلی کی پشت سے پلکوں پر جلتے ہوئے آنسووں کے قطرے پونچھ دیئے اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ نیلے آسمان پر دور تک پھیلے ہوئے بادلوں کے غبار پر نظر جم گئی۔ پھر دیکھا تو دور تک میدان ہی میدان پڑا تھا۔ مٹیالا، مٹیالا اور کہیں کہیں ہلکا سبزہ زمین پر
ایئرکنڈیشنڈ
سرمئی بادلوں نے ایک حسین شام کو تخلیق کیا تھا۔ حامد روڈ پر گہما گہمی، ریل پیل، حسن، دلفریبی، چمک دمک قہقہے اور سرگو شیاں بہہ رہی تھیں۔ مگر وہ ایئرکنڈیشنڈ ‘‘رانی ایمپوریم’‘ میں کاؤنٹر پر کھڑی بند دروازوں کے شیشوں سے باہر دیکھ رہی تھی۔سامنے ‘‘میکس فیکٹر،‘’
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-