اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
نشتر خانقاہی معروف شاعر، صحافی اور ادیب تھے۔ ان کی پیدائش فروری 1930 کو جہاں آباد ضلع بجنور میں ہوئی۔ اسکول کی تعلیم بجنور میں ہی حاصل کی اس کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور تلاش معاش میں دہلی آگئے۔ دہلی میں انہوں نے صحافت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا۔ ماہنامہ ’شاہراہ‘ ’سوبرس‘ اور ’مشاہدے‘ جیسے جریدوں کی ادارت کی۔ ہندی رسائل میں بھی ان کے مضامین اور شاعری تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہی۔ دہلی کے بعد ممبئی میں بھی قیام کیا۔ وہاں روزنامہ ’جمہوریت‘ سے وابستہ رہے۔
نشتر خانقاہی کے اس طویل صحافتی تجربے کے اثرات ان کی شاعری میں بھی نظر آتے ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں ان کے وقت کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کو مخصوص تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ منعکس کرتی ہیں۔ نشتر خانقاہی کے اردو اور ہندی میں متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ کچھ کے نام یہ ہیں۔ ’میرے لہو کی آگ‘ ’دسترس‘ ’سرائے میں شام‘ ’منظر وپس منظر‘ ’معلوم نامعلوم‘ ’موسم کی بیساکھیاں‘ ’کیسے اور کیوں‘ ’کیسے کیسے لوگ ملے‘ وغیرہ ۔
7 مارچ 2006 کو بجنور میں انتقال ہوا۔