- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
نوشابہ خاتون کے افسانے
حاصل زندگی
برسوں بعد آئینہ کے سامنے کھڑی وہ اس سراپے کو بغور دیکھ رہی تھی جس کے بالوں میں اب ان گنت چاندی کے تار جھلملارہے تھے۔ وہ اِس چہرے میںاس چہرے کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی موسم سرما کی چمکیلی اور سنہری دھوپ کے مانند روشن تھا۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا وہ روشن
گرم ہوا
” یہ کیسی دیوارہے جو میرے بچوں کے بیچ حائل ہے ۔ یہ کیسابٹوارہ ہے جس نے بھائی کو بھائی سے اور ماں کو بیٹے سے جدا کر دیاہے۔“ برسہا برس نے گزرجانے کے بعد بھی دادی امّاں اس کرب سے چھٹکارا نہیں پاسکی تھیں۔ بٹوارے کے بعد جب منجھلے اورچھوٹے چچا نے یہاں سے
گرم ہوا
“یہ کیسی دیوارہے جو میرے بچوں کے بیچ حائل ہے۔ یہ کیسا بٹوارہ ہے جس نے بھائی کو بھائی سے اور ماں کو بیٹے سے جدا کر دیا ہے۔“ برسہا برس نے گزر جانے کے بعد بھی دادی اماں اس کرب سے چھٹکارا نہیں پا سکی تھیں۔ بٹوارے کے بعد جب منجھلے اور چھوٹے چچا نے یہاں
حاصل زندگی
برسوں بعد آئینہ کے سامنے کھڑی وہ اس سراپے کو بغور دیکھ رہی تھی جس کے بالوں میں اب ان گنت چاندی کے تار جھلملا رہے تھے۔ وہ اس چہرے میں اس چہرے کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی موسم سرما کی چمکیلی اور سنہری دھوپ کے مانند روشن تھا۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا وہ
اندھ وشواس
مجھے اس کا لونی میں آئے زیادہ دن نہیںہوئے تھے اس لیے آس پاس والوں سے ابھی تک راہ و رسم استوار نہیں ہوئی تھی۔ وقت گزاری کے لیے میں سارا دن پڑا اخبار پڑھتا رہتایا کسی رسالے کا مطالعہ کرتا رہتا۔ کبھی کبھی میری نظریں سامنے والے فلیٹ کی طرف اٹھ جاتیں کیونکہ
سائبان
کہیں دور سے آتی ہوئی شہنائی کی آوازنے آج پھر اس کےان خوابیدہ جذبات میں ہلچل مچادی تھی جنھیں ان دس برسوں میں اس نے بڑی مشکلوں سے تھپک تھپک کر سلا یا تھا۔ اس نے پلٹ کر اپنے بغل والے بستر کی جانب دیکھا جو خالی پڑا تھا۔دل میں درد کی ایک خفیف سی لہراٹھی جسے
بالا دست
مدت بعد وہ وطن واپس آیا تھا جہاں سے اس کی بہت ساری تلخ و شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ جاتے وقت اس نے عہد کیا تھا کہ اَب یہاں لوٹ کر کبھی نہ آئےگا۔ لیکن نہ جانے وطن کی مٹی کی کشش تھی یا اپنوں کی محبت کہ بیس سال بعد وہ پھر یہاں کھڑا تھا۔ جب وہ اپنے قصبہ
شکوہ
”اے خدا تو کہاں ہے؟ جاگتا ہے یا سوتا ہے؟ کیا تو اپنے بندوں کے شر سے عاجز آ گیا ہے؟؟؟ ذرا آنکھیں کھول اور اس ناچیز پر ایک نظر کرم ڈال۔ تو نے مجھے کیوں بھلا دیا؟ کیوں نظر انداز کر دیا؟ یہ نہ سوچا کہ تونے جسے نظروں سے گرایا اس کا تو بیڑا ہی غرق ہو گیا۔
اندھ وشواس
مجھے اس کا لونی میں آئے زیادہ دن نہیںہوئے تھے اس لیے آس پاس والوں سے ابھی تک راہ و رسم استوار نہیں ہوئی تھی ۔ وقت گزاری کے لیے میں سارا دن پڑا اخبار پڑھتا رہتایا کسی رسالے کا مطالعہ کرتا رہتا۔ کبھی کبھی میری نظریں سامنے والے فلیٹ کی طرفاٹھ جاتیں کیونکہ
بہروپیا
”کا سماچار ہے ماسٹرجی! کہاں بم پھٹا کہاں آگ لگی۔ کتنے مرے کتنے گھائل ہوئے؟“ اپنے ڈیوڑھی پر بیٹھا بھولے روز ماسٹرجی سے یہی سوال کرتا۔ ”ای سسری مہنگائی او بےروجگاری کمر توڑ دیئے ہے۔“ بھولے روز روز کی ہڑتال اور بےروزگاری سے بیزار تھا۔جب اسے کام ملنے
شکوہ
”اے خدا تو کہاں ہے ؟ جاگتاہے یا سوتا ہے ؟ کیا تو اپنے بندوں کے شر سے عاجز آگیا ہے ؟؟؟ذرا آنکھیں کھول اور اس ناچیز پر ایک نظر کرم ڈال۔ تو نے مجھے کیوں بھلادیا؟ کیوں نظر انداز کردیا؟ یہ نہ سوچا کہ تونے جسے نظروں سے گرایا اس کا توبیڑا ہی غرق ہوگیا۔ آخر
کوئی منزل نہیں
گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔میں کھڑکی سے لگی اپنے خیالوں میں گم لمحہ لمحہ اس شہر سے دور ہوتی جا رہی تھی۔اس شہر سے جہاں یہ خوف غالب تھا کہ اگر کچھ دن اور یہاں رہ گئی تو بدنامی اور رسوائی کے چھینٹے میرے دامن کو داغدار کر دیں گے۔ گاڑی اب شہر کی
سائبان
کہیں دور سے آتی ہوئی شہنائی کی آواز نے آج پھر اس کےان خوابیدہ جذبات میں ہلچل مچا دی تھی جنھیں ان دس برسوں میں اس نے بڑی مشکلوں سے تھپک تھپک کر سلا یا تھا۔ اس نے پلٹ کر اپنے بغل والے بستر کی جانب دیکھا جو خالی پڑا تھا۔ دل میں درد کی ایک خفیف سی لہراٹھی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-