Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Naz Qadri's Photo'

ناز قادری

1940 - 2019 | مظفر پور, انڈیا

شاعر اور افسانہ نگار، اپنی تخلیقات میں مشترکہ تہذیبی روایات کی بازیافت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

شاعر اور افسانہ نگار، اپنی تخلیقات میں مشترکہ تہذیبی روایات کی بازیافت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

ناز قادری کا تعارف

تخلص : 'ناز'

اصلی نام : محی الدین

پیدائش : 09 Dec 1940 | مظفر پور, بہار

وفات : 13 Nov 2019 | مظفر پور, بہار

پروفیسر محی الدین نازؔ قادری اپنی علمی ، فنی اور تخلیقی کمالات کے حوالے سے خاص مقام و مرتبہ کے حامل ہیں ۔ نازؔ صاحب اردو ادبیات کے نامور استاذ ہیں ، انہوں نے لاتعداد طلبہ کو علم و ادب سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ، شاعری، تنقید و تحقیق کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے اور اردو تہذیب و ثقافت کے فروغ میں عم عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا ہے۔ نازؔ قادری جدید لب و لہجہ کے اہم شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کی غزلیہ شاعری فکری ، معنویت، اثر پذیری، سادگی دل آویزی اور فلسفیانہ آہنگ کے سبب انہیں معاصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ لیکن اگر نازؔ قادری غزل سے مستقل رشتہ قائم رکھتے تو یہ قیاس مشکل ہے کہ ان کی موزونی طبع ، وسعتِ فکر و خیال، تبحر علمی ، عصری حسیت اور فطری سوز گدازانہیں کمال فن کی کس تیزی کے ساتھ لے جاتا؟ درحقیقت نازؔ قادری اپنی وضع کے منفرد فن کار ہیں جن کی تخلیقی سیمابیت نے انہیں شروع سے ہی بے چین رکھا، آغاز افسانہ نگاری اور تنقید سے کیا ، ساتویں دہائی میں نوجوان افسانہ نگار نے اردو دنیا کو چونکا دیا، توقع کی جانے لگی کہ ایک بڑا کہانی کار مطلع ادب پر نمودار ہو رہا ہے مگر تھوڑی دور چل کر افسانہ کو خیر باد کہہ دیا۔ البتہ تنقید و تحقیق سے تعلق استوار رکھا اور اپنے وسیع مطالعے ، پارکھی نظر اور منصفانہ ادب شناسی کے جوہر دکھائے۔ وہ افسانہ نگاری چھوڑ کر نگار غزل کے کاکل و گیسو سنوارنے لگے، مشق و ریاضت فن کا شہرہ نصف النہار پر پہنچنے کو تھا کہ ان کی فیروز بختی اس وادیِ نور میں لے آئی جہاں توحید و رسالت کی تجلیاں دل و روح کو منور کرتی ہیں ۔ نور مجسم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت مادّی دنیا کی ہر چاہت سے ماوریٰ کر دیتی ہے۔ نازؔقادری حبیب خدا سے محبت اور روایت حسّانی سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ ان کے ذہن و نطق سے نعت شریف اور مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لعل و گہر برسنے لگے۔ نعت گوئی کے باب میں شعرا کا موازنہ اور بڑے چھوٹے کی تطبیق نہیں کی جاتی کہ نعت شریف ، حسبِ استطاعت وہی شاعر کہہ سکتا ہے جسے توفیق عطا ہوتی ہے۔ نازؔقادری اپنے عہد کے ارفع نعت گو شعرا میں نمایاں ہو گئے۔

نبی کے عشق نے بدلاہے اعتبارِ نگاہ

غزل سرا تھا مگر نازؔ نعت خواں تو نہ تھا

ناز صاحب کی تخلیقیت اور علمیت کو جس روحانی اور نورانی منزل کی آرزو تھی ، وہ نعت گوئی کی صورت میں انہیں مل گئی۔ان کے خوب صورت مجموعے ’چراغ حرا‘ (2008) اور ’سلسبیلِ نور‘ (2015) مدحت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے دل سے نکلتے ہوئے عرفانی کلام کے پاکیزہ مرقعے ہیں جن پر ملک و بیرون ملک کے ارباب ِ فکر و نظر نے خوب خوب روشنی ڈالی ہے۔ اس جگہ اولین نعتیہ مجموعے ’چراغِ حرا‘ کے بارے میں امین شریعت بہار و فقیہ آعظم ہالینڈ حضرت علامہ مفتی عبدلواجد نیر قادری مدظلہٗ کی گرانقد رائے پر اکتفا کرتا ہوں جو کتاب کی پشت پر درج ہے۔

خاندانی رسم و رواج کے مطابق ابتدائی دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن کے بعد جدید تعلیم کے لیے مقامی اسکول میں داخل ہوا، جہاں سے میٹرک کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ بعدہٗ میں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے لنگٹ سنگھ کالج، مظفرپور میں داخلہ لیا جہاں اہل سنت و الجماعت کے پیروکار اور دین دار اساتذہ ڈاکٹر اخترقادری، پروفیسر محمد سلیمان، پروفیسر شمیم احمد اور پروفیسر نجم الہدیٰ کی درس و تدریس اور فیض بخش ہم نشینی و ہم کلامی میسر آئی۔ طالب علمی کے سنہرے ایام نے اپنی غلط انداز نگاہوں سے ابتدائی زندگی کو بھرم میں رکھا، ایم اے تک آتے آتے ممتاز کامیابی حاصل ہوئی۔

                                                          — سلسبیلِ نور؛ص:۱۴،۱۵—

محی الدین ناز قادری کا تعلیمی رکارڈ شاندار رہا ، انہوں نے ایم اے (اردو،فارسی)میں امتیاز اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔ اس کے بعد ’اردو ناول میں خواتین کا حصہ‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور دکن کی عظیم خاتون صغرا ہمایوں مرزا کی سماجی اور علمی خدمات پر ڈی لٹ سے سرفراز ہوئے اور جیوچھ کالج موتی پور(مظفر پور) میں لکچررمقرر ہوئے جہاں اکتوبر1964سے نومبر1975تک تدریسی فرائض انجام دیے۔نومبر 1975سے1976 تک سی ایم کالج دربھنگہ میں فروری 1976سے نومبر1976تک پھر جیوچھ کالج موتی پورمیں ، نومبر 1976سے نومبر 1982تک ٹی این بی کالج بھاگل پور میں ، نومبر 1982سے جنوری 1984تک ایل ایس کالج مظفرپور میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جنوری1984میں بہار یونی ورسٹی مظفرپور کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوئے۔ صدر شعبہ رہتے ہوئے جولائی 2004میں سبک دوش ہوئے لیکن اس طویل تدریسی منصب کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کا ادبی و تخلیقی سفر جاری رہا۔زمانۂ طالب علمی سے ہی افسانہ نگاری، شاعری اورتحقیق و تنقید کا ذوق گہرا ہو چکا تھا ۔ اردو ادبیات کی کتابیں ناول افسانے وغیرہ پڑھنے میں بہت دل لگتا تھا۔ 1962میں جب ان کی عمر صرف 22سال کی تھی وہ بی اے کر چکے تھے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان کی پہلی تخلیقات میں نظم ’انتظار‘ ایک افسانہ ’اور زندگی مسکرانے لگی‘ اور ایک تنقیدی مضمون ’اقبال بحیثیت شاعر‘ شامل ہیں ۔ نظم ماہنامہ ’شمع ادب‘ سلطان پور کے شمارہ مارچ1963میں مضمون ماہنامہ’ صنم‘ پٹنہ شمارہ فروری1963میں اور افسانہ ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ نئی دہلی کے شمارہ اپریل1964میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کی افسانہ نگاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

افسانہ نگاری کا سلسلہ 1974تک جاری رہا۔ انہوں نے گیارہ افسانے لکھے جن میں ’یادوں کے دریچے،‘ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘، ’پلکوں میں آنسو‘، ’وہ ایک بات‘، ’خوشنو تیری وفا کی‘، ’درد کب تک ٹھہرے گا‘اور’ تشنگی کا سفر‘ کثیرالاشاعت ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہو کر پورے بر صغیر میں مقبول ہوئے جبکہ ’تیرگی کے غار سے‘ اور’ آوارہ سائے‘ ماہنامہ ’صبح نو‘پٹنہ اور ’شیشے کا مسیحا کوئی نہیں ‘ ماہنامہ ’پیمانہ‘ موتی ہاری میں شائع ہوئے۔ ناز صاحب کا افسانوی مجموعہ ’ وہ ایک بات‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ نازقادری کی یہ کہانیاں رومان اور عشق محبت کے واقعات و محاکات پر مبنی ہیں ، لیکن ان کا ہر افسانہ تکنیک، کردار نگاری، زبان و بیان کے لحاظ سے اس دور کے اچھے افسانوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ جے این یو کے نوجوان اسکالرفیاض احمد وجیہہ نے اپنے بسیط مقالے میں ناز صاحب کے سبھی گیارہ افسانوں کا بہترین تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

عشق، عورت اور جنس نازقادری کے ہاں کہانی کی ساخت میں زیادہ متوجہ کرتے ہیں ۔ تمام کہانیوں میں اس کا کوئی نہ کوئی حوالہ موجود ہے ۔ غور سے دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے فکشن کی روایات میں اپنی جمال پسندی کو پیش کیا ہے ۔ اس جمال پسندی کی ساخت کہیں کہیں ٹوٹی ہوئی ہے تو اس میں ان کے اس فن کار کو دخل ہے جس نے ایک مخصوص عرصۂ حیات کی کہانی لکھی ہے ۔ ان کی کہانیاں آج کے قاری سے کچھ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔شاید یہ کہ ان معصوم اور سچی کہانیوں کا زمانہ کہاں چلا گیا ۔ کیا آج کا انسان عشق نہیں کرتا ۔ہوس کی بھوک نے عشق کے تقدس کو اس قدر پامال کردیا کہ ایسی کوئی کہانی نہیں لکھی جاسکتی۔کیا نازقادری کے کردار فقط ماضی میں زندہ ہیں ۔ان کی کہانیاں سوال کرتی ہیں کہ مہانگروں کی سچائی سے پرے بھی ایک سچائی نہیں ہے ؟مشرقی طہارت میں فینتاسی اس نوع کی کہانیوں کو ایک نیا فنی مزاج عطا کرسکتی ہے ۔ تانیثیت کے صیغہ میں خلق کیا گیافکشن سچائی کا ایک رخ ہے ۔ انسان کی معصوم خواہشیں آج بھی زندہ ہیں اور ایسی کہانیوں کے لیے فن کو پکار رہی ہیں ۔ نازقادری کے فن میں ممکن ہے وہ سلیقہ نہ ہو جو فن کو دوام بخشتے ہیں لیکن اس کی موجودگی قلوپطرہ اور ہیر کی لا زوال کہانی کو اپنے سماج میں تلاش کرنے کا جوازضرور فراہم کرتی ہے۔ہاں ایسی کہانی اب جنم نہیں لیتی!

                             —ناز قادری کی قلو پطرہ؛مطبوعہ بزم سہارا، نئی دہلی، ستمبر ۲۰۱۲ء—

اپنے تغیر پذیر تخلیقی سفر اور شاعری کے حوالے سے ناز قادری کا بیان ہے :

ہر قلم کار کا ادب اسی کی ذات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ میری زندگی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مجموعہ رہی ہے۔ چناں چہ میرا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا لیکن داخلی آتش خانے کی آنچ شاعری کی متقاضی رہی۔ خارجی عناصر کی کارفرمائی نے تحقیقی و تنقیدی نگارشات کی طرف بھی مائل کیا ۔ ان دنوں شعری رجحات ہی غالب ہیں اور تخلیقی لہریں ساحلِ سخن پر آکر ٹھہر گئی ہیں ۔ البتہ سمند فکر ایوان غزل سے نکل کر نواح طیبہ میں محو خرام ہے، یہ ایک خوش گوار واقعہ ہے، پھر بھی تحقیق و تنقید سے رشتہ آج بھی باقی ہے۔ ہاں زندگی کے گرد و نواح سے کہانیاں چُننا ترک کردیا ہے۔

تخلیقی سطح پر ترقی پسندی سے لے کر جدیدیت کی آزمائش گاہوں سے بھی گزرنا پڑا۔ کسی وقتی ادبی تحریک کا ربڑ اسٹامپ اچھا نہیں لگتا ۔ زندگی اور سماج کی دیر پا اور تا بندہ قدروں کی پاس داری عزیز ٹھہری۔ کہانیوں سے لے کر شعری تخلیقات تک زندگی کی چلتی پھرتی پر چھائیاں چُنتا رہا ہوں ۔ صنعتی تہذیب کی ہنگامہ آرائیوں کے باوجود رومان انگیزیاں بھی زیریں لہروں کی طرح انگڑائیاں لیتی رہی ہیں ۔نری رومانیت کی سطح پر آکر کبھی کھبی ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے:

جو کچھ تھا سب سراب تھا جو کچھ ہے سب فریب

یہ زندگی تو خواب کا منظر دکھائی دے

 حالات کی نامساعدت نے کہیں کہیں قنوطیت کی رنگ آمیزی بھی کی ہے لیکن کش مکش کے حصار سے نکل کر میری شاعری نے رجاعیت کا پر چم کبھی نہیں جھکایا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

قافلہ والوں کو منزل کا پتہ یاد نہیں

حوصلہ ہے تو ہر اک راہ گزر روشن ہے

ہزار تیر ترازو تھے جسم میں لیکن

بلا کا زور، پرندے کے بال وپرمیں تھا

نازؔ کہتے ہیں تیرگی جس کو

ہے فقط رات بھر کا آئینہ

میری شاعری میں جدید فلسفہ و نظریہ کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ وجودیت موجودہ اردو شاعری پر ایک آسیب کی طرح چھائی رہی۔ کہیں کہیں وجودی اثرات میرے کلام میں بھی جھلک اٹھتے ہیں :

تمام عمر لہو بن کے دوڑتا ہی رہا

نہ جانے کون میرے جسم کے کھنڈر میں تھا

سارترؔ سے لے کر دیگر وجودی مفکر نے  THE OTHERکا جو تصور پیش کیا تھا، یہ شعر اس کی آئینہ داری کرتا ہے۔ یہ دورایک عبوری دور ہے اور طبقاتی کش مکش اپنی انتہائی منزل تک آچکی ہے۔ چنانچہ عصری تقاضوں کو میں نے عام فہم علامتوں کے ذریعہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ روایتی سمبول اور تراکیب کے پیمانے میں میں نے اپنی عصری نفسیات کو پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ رات؍ لہو؍ صحرا؍سراب؍ تیشہ؍خواب رواں ؍افسوں خانۂ سودو زیاں وغیرہ الفاظ ایک نئی معنویت کے ساتھ میرے اشعار میں برتے گئے ہیں :

موج خوں پھیلی تو مٹ جائیں گے نقش و رنگ سب

آتش احساس میں خواب رواں جل جائے گا

ہم کو ہو جائے اگر اپنی حقیقت کا شعور

سارا افسوں خانۂ سودوزیاں جل جائے گا

مختصر یہ کہ میری شاعری روایت و بغاوت کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتی ہے اور میرے آئینۂ سخن میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مضامین ایک دوسرے سے ہم آہنگ و مدغم ہیں ۔

—میں اور میری شاعری؛رنگ شکستہ؛ص: ۱۵،۱۶—

نازقادری بلا شبہ غزلیہ شاعری سے مجتنب ہو چکے ہیں اور ان کا سمندِ فکر ایوانِ غزل سے نکل کر آج نواحِ طیبہ میں محوکرخرام ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ عصری حسیات، محسوسات اور فکر کی تازہ کاری آراستہ ان کی شاعری کے تین مجموعے ’لمحوں کی صدا‘ (1997)، ’صحرا میں ایک بوند‘ (2011)اور ’رنگِ شکستہ‘ (2014) نئی اردو غزل کے وہ آئینہ خانے ہیں ، فن میں ایک عہد ساز  شاعر کی پروازِ فکر و خیال، تخلیقی صلابت اور فنی ریاضت کی رنگوں کی ہزار رنگ قوسِ قزح لچک رہی ہے۔ یہ شعری سرمایہ اتنا ہے کہ کوئی بھی شاعر اس کے کلیات کو اپنی تخلیقی عمر کی ساری کمائی جان کر ادب کی تاریخ میں امر ہونے کا دعویٰ پیش کر سکتا ہے۔ اس بات کے جوازمیں نازقادری کے یہ چند اشعار دیکھتے چلیں :

ہورہی ہیں پتھروں کی بارشیں

تم کہاں یہ آئینہ لے کر چلے

دوستوں کے ساتھ مل کر ہنس لیے

اور اداسی دل میں لے کر گھر چلے

میں اپنے آپ سے آگے نکل سکا نہ کبھی

مرا وجود مرے راستے کا پتھر تھا

زندگی ہے تحیر کا آئینہ خانہ

میں اپنا مد مقابل ہوا یہ کیا کم ہے

سمندروں کو بھی رشک آئے جس کی وسعت پر

مرے لبوں پہ وہ صحرائے تشنگی رکھ دے

عذابِ جاں یہ طلسم جہاں ہے میرے لیے

چمن قفس ہے، قفس آشیاں ہے میرے لیے

روز وشب سہتے رہے ٹوٹتے لمحوں کا عتاب

خوف خنجر سا  قریب رگِ جاں تھا پہلے

تم نے سوچا نہیں ہے، ہم نے دیکھا نہیں ہے

اک نہ اک دن وہ کبھی زیر آسماں ہو جائے گا

کرم پہ آئے تو کیف و سرور سے بھر دے

وہی نگاہ جسے ہم عذاب کہتے ہیں

مشغلہ ان کا بہ ظاہر کاروبارِ گل سہی

وہ بھی زیرِ آستیں رکھتے ہیں اک خنجر نیا

آؤ کہ کہیں بیٹھ کے کچھ بات کریں ہم

پھر وقت کے ماتھے پہ شکن دیکھ رہے ہیں

سکوں کچھ ایسا ملا در بہ در بھٹکنے میں

پلٹ کر پھر نہ کبھی اپنے گھر گیا وہ شخص

صرف پازیب کی جھنکار پہ موقوف نہیں

فتنۂ دارورسن ہو تو غزل ہوتی ہے

یہ اشعار مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر درج ہوئے ہیں جبکہ نازقادری کی شاعری از اول تا آخر حسن بیان، متنوع موضوعات اور محاکات سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن نازقادری کا دائرۂ سخن غزل تک ہی محدود نہیں ہے۔ انہوں نے آزاد اور پابند دونوں طرح کی نظمیں بھی تخلیق کی ہیں جن میں انتظار،یادوں کے دریچے، آرزو، وہی لڑکی، نقش ماضی، ابھی نہ جاؤ، کرب احساس جیسی رومانی و جذباتی پابند نظموں کے علاوہ نغمۂ سحر کے عنوان سے جشن آزادی کے موضوع پر جو طویل اور خوب صورت نظم لکھی ہے وہ اردو کی قومی شاعری میں یقینا بیش بہا اضافہ ہے۔ ایک بند دیکھیں :

جمال روئے وطن سا نہیں جمال کوئی

نہیں ہے مادرِ گیتی سا بے مثال کوئی

پڑے نہ شیشۂ انسانیت میں بال کوئی

کہ رنگ ونسل کا پیدا نہ ہو سوال کوئی

یہ جشن خاص ، یہ تقریب گنگا جمنی ہے

دیار ہند کی تہذیب گنگا جمنی ہے

’داغ ہے پیشانیِ ہندوستان پر‘ 6دسمبر1992کو بابری مسجد کی شہادت پر کہی گئی نازقادری کی معریٰ نظم ہمیشہ ہر صاحب دل کو تڑپاتی اور منفی ذہنیت کو شرم دلاتی رہے گی۔ اس شاہکار نظم کی آخری لائنیں ہیں :

وہ خدا خانہ، وہ معبدبندۂ اخلاص کا

جس کی مسماری کے بعد

دم بہ خود انسانیت ہے

اور شرافت سر بہ زانو

چشم تہذیب و ثقافت اشک بار

اعتبار لالہ و گل تار تار

اب کہاں گلشن میں وہ رنگ بہار

چھ دسمبر

ہاں ، وہی یوم سیاہ

داغ ہے پیشانیٔ ہندوستاں پر

 داغِ بدنامی ہمیشہ کے لیے

جھک گیا جس کے سبب سر ملک کا

ناز صاحب نے فکر انگیزنظموں کے علاوہ اپنے عزیزوں اور اہم شخصیات کے رحلت پر دلدوز مرثیے، شادیوں اور خوشی کے مواقع پر تہنیتی منظومات اور سہرے وغیرہ بھی خوب لکھے ہیں ، یہ ان کی قادرالکلامی کا بین ثبوت ہے۔

پروفیسرنازقادری اردو کے وسیع النظر ناقد اور محقق ہیں ، ان کی تنقیدی ، تحقیقی کتابیں اربابِ نقد ونظر کے حلقوں میں توصیف و تحسین کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ دریافت، اردو ناول کا سفر اور زاویے وغیرہ ان کی نگارشات ادبیاتِ عالیہ کے طلبہ کے لیے بہترین رہنما ہیں ۔ وہ بذاتِ خود ایک حساس فن کار ہیں اس لیے ان کی تنقید کا انداز ’چیر پھاڑ‘ والا نہیں بلکہ مروجہ اصولِ نقد کی پیروی کرتے ہوئے تمثال و استدلال کے ذریعہ فن پارہ کے محاسن اور معائب کی نشاندہی نرمی و ہمدردی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی تنقید کو تجزیاتی اور تفہیمی تنقید کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ناز صاحب بنیادی طور پر معلم ہیں ، لہٰذاان کا تنقیدی رویہ طلبہ اور قارئین کو موضوع کے حسن و قبح سے واقف کرانے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ان کا معلّمانہ اور رہبرانہ طرز تنقید ان کے مقالات، سحرالبیان ایک مطالعہ، اردو میں جدید نظم نگاری اور حالی، مولانا ابولکلام آزاد کی سیاست دینی، اقبال کا نظریۂ دین و سیاست، کبیر داس کے کلام میں عصری آگہی وغیرہ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ بہار کے عظیم شاعر جگر مہسوی: شخص اور عکس، ریاست کے قدیم مردم خیز ضلع چمپارن کی علمی ادبی تاریخ اور کاملین علم و ادب کا تذکرہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ریاضتوں کا آئینہ ہے۔ اسی طرح بہار میں ظریفانہ ادب کی تخلیق، اس موضوع پر بھر پور معلوماتی اور جائزہ ہے۔ جنوبی ہند کی معروف اردو شخصیت علیم صبا نویدی کی ہائکو نگاری کا تنقیدی جائزہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ نازقادری مغربی ادبیات، شعریات اور فکریات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ جہاں تک ان کی تنقیدی تحقیقی کاوش ’اردو ناول کا سفر‘کا سوال ہے ، اسے اردو فکشن کی تنقید کا سنگ میل کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑی بات یہ ہے کہ ناز صاحب نے دستور عام کے مطابق دانشورانہ تعّلی کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ اپنی کتاب ’زاویے‘ میں وضاحت کے عنوان سے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

میں نے اپنے تنقیدی شعور و بصیرت کا ادعا کبھی نہیں کیااور نہ اپنے آپ کو ناقد کہا، آج بھی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ زبان و ادب کے طالب علم اور قاری کی حیثیت سے اپنے ادبی سفر کے دوران تنقیدات وتحقیقات کے پُر پیچ و خم دار اور خاردار وادیوں سے گزرتا رہا۔ مطالعہ شعر ادب کے دوران میں کسی نظریے کی عینک نہیں لگاتابلکہ راست مطالعہ اور تاثرات اور خیالات کا بر ملا اظہار و بیان میرا شعار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میرا نقطۂ نظر کسی نہ کسی نظریہ سے شعوری یا لاشعوری طور پر متصادم یا ہم آہنگ ہو جائے۔ یہ مختلف تنقیدی مسالک کا تقاضہ بھی ہے۔

—زاویے،ص:۶—

نازقادری کو ان کی کتابوں پر بہار ، اترپردیش اور مغربی بنگال اردو اکادمیوں نے انعامات دیے ہیں ۔ انہیں آل انڈیا میر اکادمی لکھنؤ کے امتیاز میر ایوارڈ (1993)، آئی آئی ایف ایس نئی دہلی کے وجے شری ایوارڈ ( 2006) آئی آئی ایف ایس کے شکشا رتن ایوارڈ (2008)یو نی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے ایوارڈ آف امیرٹس فیلو شپ (2010)، بہار اردو اکادمی کے وقاری حسن عسکری ایوارڈ (2013)سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ ناز صاحب کی نجی زندگی خوشگوار اور شاندار رہی، ان کی شادی جناب اشرف قادری مرحوم کی صاحب زادی محترمہ شمیم آرا کے ساتھ 1966میں ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ فرزندوں ، صلاح الدین احمد، ضیاء الدین احمد (شاہد جمال)، شہاب الدین احمد، نظام الدین احمداور معین الدین احمد۔ ان میں ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شاہد جمال ہر لحاظ سے اپنے والد کے جانشیں تھے لیکن مشیت الٰہی کے آگے فانی انسان لاچار ہے۔ جولائی 2006میں جرائم پیشہ عناصر نے شاہد جمال کو اغوا کر کے قتل کر دیا، یہ سانحۂ عظیم ناز صاحب پر کس طرح گزرا ہوگا ، اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مرحوم شاہد جمال اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے، انہوں نے علامہ اقبال کی غزلیہ شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ صاحب فکرو قلم ڈاکٹر شاہد جمال نے اپنے والد محترم کی قیادت میں مظفر پور سے ایک معیاری ادبی جریدہ سہ ماہی ’صدف ‘ جاری کیا تھا، جو ان کی ناوقت موت کے ساتھ بند ہو گیا تھا ، لیکن اب اپنے پیارے بھائی کی یاد میں ناز صاحب کے فرزند ثانی شہاب الدین احمد نے والدمحترم کی سرپرستی میں شاندار پیمانے پر سہ ماہی ’صدف‘ کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ آرٹ پیپر پر چھپنے والا یہ حسین و جمیل ادبی مرقع ہے جس کی ادارتی ذمہ داریاں جناب صفدر امام قادری کے سپرد کی گئی ہیں ۔

نازقادری صاحب کو عزیز از جان فرزند کے انتقال کے بعد یکم جنوری 2009 کو رفیقۂ حیات محترمہ شمیم ناز صاحبہ کی رحلت کا جانکاہ صدمہ بھی سہنا پڑا ، ان کے شکستہ دل سے یہ التجا نکلی:

تخفیف اضطراب کا طالب ہے قلبِ نازؔ

توفیقِ صبر و ضبط عطا ہو شہِ حجاز

اللہ کریم نے اپنے حبیب کے صدقے میں انہیں صبر و استقامت کی قوت عطا کی ہے، راضی بہ رضائے خالق کائنات ناز صاحب نے اپنی پوری توجہ پرورش لوح و قلم پر مرکوز رکھی ہے، ان کی کئی کتابیں اشاعت کے لیے تیار ہیں ۔ ان کا عزم ہے:

قلم بدست رہوں گا میں عمر بھر اے نازؔ

جو رکھ دے ہاتھ سے تیشہ وہ کوہ کن تو نہیں


موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے