Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nazeer Azad's Photo'

نذیر آزاد

1958 | کشمیر, دوسرا

نذیر آزاد کے اشعار

تجھ میں گر بارش سمندر کے برابر ہے تو کیا

میرے اندر بھی ہے صحرا کے برابر تشنگی

آنکھ بھر عشق اور بدن بھر چاہ

شکر لب بھر گلہ زباں بھر تھا

ذرہ ذرہ کربلا منظر بہ منظر تشنگی

اپنے حصے میں تو آئی ہے سراسر تشنگی

آباد ہے اس دل کا جہاں جس کے قدم سے

وہ مجھ کو پکارے ہے کسی اور جہاں سے

ترا خیال مرے دل میں کیسے گھر کرتا

ترا خیال مری وحشتوں سے آگے ہے

کیا ملا جز سکوت بے پایاں

شور سینے میں کارواں بھر تھا

داستاں گو تھا کسی باب سے نکلا ہوگا

وہ جو کہتا تھا کہ دیوار میں در ملتا ہے

تشریح

تفہیم شعر کے لیے کسی ذہنی ورزش کی ضرورت نہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے تخلیقِ شعر الفاظ کی کسرت یا گورکھ دھندہ نہیں۔ اس حقیقت کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تفہیمِ شعر میں کسی منطق کی دخل نہیں۔ شعر کی معنوی جہتوں کی آخری پرت اگر خود شعر قاری کے علم، دجدان اور شعری روایات و رسومیات کے سہارے راہنمائی نہیں کرتا تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قاری ایک تصوراتی ہیولا اپنی سہولت کے پیش نظر تیّار کرتا ہے جو اپنی ظاہری شکل میں واضح کم اور جرد زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس طور کے تفہیمی عمل سے شعر کے مضمون کے ڈانڈے تاریخ، سماجیات، اقتصادیات، فلسفہ، ریاضی یا کسی اور غیر تخلیقی یا غیر شعری علم سے ملا کر اسے ادبی قدر سے محروم کیا جائے۔ متون کے بیچ رشتے کی اہمیت اور ضرورت سمجھنے اور شعر کی تفہیم میں اس عمل کو بروئے کار لانے کے فن سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد قاری کے لیے ضروری ہے کہ شاعری کے تئیں بنا کسی بیرونی دخل اندازی کے اپنے ردِ عمل کو وسیع بنانے کے لیے اس میں موجود تخلیقی عناصر کی شناخت کرے۔ قاری کوئی ناقد نہیں ہوتا کہ تنقیدی ضابطۂ عمل سے شعر کے حسن و قبح کی نشاندہی میں اپنے فطری ذوق کو قربان کردے۔ اپنے ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے بہرحال شعر کے اسلوب کی طرح رجوع کرنا پڑے گا۔نذیر آزادؔ کا یہ شعر اپنے اسلوب کی تخلیقی کارگزاری کے سبب شاعرانہ تجربے میں ڈھل کر ایک وسیع اور گہرے ردِ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اس شعر میں تخلیقی سچائی بھی ہے اور شاعرانہ نشاط انگیزی بھی۔ ’’داستان گو‘‘ سے قاری کا ذہن یکلخت ایک ایسے مسرت بخش ماحول کی طرف جاتا ہے جہاں طلسماتی فضا میں سکون و فرحت کی فضا بھی ہے اور کرداروں کے ارد گرد گھومنے والا قصّہ بھی۔ نشیب و فراز بھی اور کشمکش بھی۔ مگر اس داستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کا راوی خود قصّے سے باہر نکل جاتا ہے۔ ’’نکل گیا ہوگا‘‘ قاری کو یقین و گمان کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔1: کیا واقعی کوئی داستان گو موجود تھا؟2: اگر تھا تو وہ کیوں نکل گیا؟3: اور اگروہ نکل گیا تو تو داستان کو کون آگے بڑھا رہا ہے۔ ان سوالوں پر غور کرنے کے بعد لگتا ہے کہ اب داستان کا قصّہ اور کردار غیر محسوس طریقے سے بدل جاتے ہیں اور صورتِ حال انسانی حیات کی المناکی سے تعبیر ہونے لگتی ہے۔ ’’کسی باب سے نکلا ہوگا‘‘ اور ’’وہ جو کہتا تھا‘‘ میں سپاٹ بیانیہ نہیں بلکہ ایک گہرا طنز بھی ہے جسے شاعر کی حسِ ظرافت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مثلا1: داستان گو بڑی ڈینگیں مارتا تھا کہ جو دیوار اہِ فرار میں حارج ہے اس میں دروازہ ہے۔2: دیوار میں دروازہ ہے اس علم صرف داستان گو کو ہے ورنہ کوئی بھی کردار اس کی نشاندہی کرسکتا ہے۔3: داستان گو کیوں غائب ہوگیا۔ اس سے قبل بھی کئی داستان گو ایسا دعویٰ کرچکے ہیں مگر دیوارِ طلسم کے اس پار پھنسے ہوئے کرداروں کو اپنے حال پر چھوڑ کر اپنے حال پر چھوڑ کر نکل گیا۔ ’’کسی باب سے نکلا ہوگا‘‘ خود داستان کی المناکی کو ظاہر کرتا ہے۔

دیوار کی مناسبت سے در اور ان دونوں کی رعایت سے باب شاعر کی تخلیقی گہرائی کو واضع کرتا ہے۔ لفظ باب ذومعنی ہے۔1: داستان گو داستان کے کسی حصّے سے نکل گیا ہوگا۔2: داستان گو ان دروازوں میں سے کسی دروازے سے نکل گیا ہوگا جو دیوارِ طلسم میں ،موجود ہیں اور جن کا علم صرف داستان گو کو ہے۔

اس شعر کی سب سے بڑی خوبی اس کی پراسرار فضا ہے جو قاری کو حیرت و استعجاب کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے۔ لفظوں کی روانی کے عالم میں جہاں قاری پہلی ہی قرآت سے فرحت و نشاط کی ایک جھلک سے محظوظ ہوجاتا ہے وہاں معنی کے دیگر ابعاد کئی جھلکیوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ داستان گو کو بڑی خوبی کے ساتھ استعمال کی گیا ہے۔ میں اس علامت کے ساتھ کوئی معنوی جہت منسلک کرکے قاری کے تخیّل پر قابض نہیں ہونا چاہتا۔ کیونکہ اس سے جو طلسماتی فضا قائم ہوگئی ہے اسے مظہریات سے تعبیر کرکے مجروح نہیں کیا جاسکتا۔

شفق سوپوری

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے