- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
نگار عظیم کے افسانے
عمارت
پھولوں سے لدی بگن وِلا کی بیلوں نے دیوار میں نسب نیم پلیٹ کو تقریباً ڈھک لیا تھا۔ میں نے ذرا جھک کر نیم پلیٹ پڑھنے کی کوشش کی۔ کرنل قیصر بیگ C-11۔ پھر میں نے اپنی فہرست میں درج نام کی تصدیق کرتے ہوئے کال بیل پر انگلی رکھ دی اور کچھ فاصلے سے کھڑے ہوکر
لمس
موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ بارش کی مندمند پھوہار نے موسم میں مزید تازگی بھر دی تھی۔ لیکن میرے اندر کے کسیلے پن نے اس روح پرور موسم کے لطف سے مجھے محروم رکھا۔ بس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اسے اتفاق کہیے یا موسم کا کرم کہ بس میں سواریاں بہت کم
عکس
اف میرے خدا۔ یہ میں نے کیا دیکھ لیا... میرا وجود پارہ پارہ ہوکر لرزنے لگا ہے۔ دل کی گھٹن بڑھتی ہی جا رہی ہے... کاش میں نے یہ سب کچھ نہ دیکھا ہوتا۔ بچپن سے لے کر جوانی کے آخری لمحوں تک کی یادیں میرے ذہن کو جھنجھوڑنے لگیں۔ اس وقت میں کوئی چھ برس کی تھی۔
ایک زندہ کہانی
میری زبان پر آیا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ نوری نے جھپٹ کر اتنی زور سے میرا منہ بند کیا کہ میں چھٹپٹا گئی۔ اگروہ کچھ دیر اور دبائے رکھتی تو یقیناً میری آنکھیں باہر آ جاتیں۔ نوری واقعی بہت خوبصورت تھی۔ ذہین اور بے باک۔ فیصلے کرنے میں ماہر
تعلق
کمرہ اس وقت خالی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنا بیگ اٹھایا۔ باہر نکلنا ہی چاہتی تھی کہ وہ پھر نازل ہو گیا۔ ’’ارے۔ کہاں جارہی ہو؟؟‘‘ ’’جی۔۔۔ جی گھر۔۔۔ بہت دیر ہو جائےگی۔ یہ شبوا بھی تک نہیں آئی؟؟‘‘ اس نے بے چینی ظاہر کی۔ ’’ہاں ہاں آ جائےگی۔ چلی جانا۔
گہن
ستارہ چلی گئی اور نازش کا جیسے سارا سکون لے گئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اسے نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ ذلیل بھی ہوئی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا وجود دھنی ہوئی روئی کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر اڑ رہا ہے۔ ستارہ ایک رنڈی کی اولاد اسے نہ
طنابیں
جب ذرینہ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا تو وہ نو برس کی تھی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے اس کی ماں شکیلہ کو کئی گھروں کے برتن مانجھنا پڑتے، لیکن کرایہ نہ دے سکنے کی وجہ سے سر چھپانے کی جگہ چھن گئی تھی۔ ماں کو در در بھٹکتے روتے سسکتے دیکھ دیکھ کر ذریعہ کا بچپن
مادری زبان
دروازے کے ادھر ادھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا... کوئی آواز نہیں... پھر دوبارہ اور زور سے... اور زور سے...؟ ’’کون ہے‘‘؟... چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔ میں نے گردن اٹھائی
ابورشن
آسمان سے بادل صاف ہو چکے تھے۔ ہوا میں خنکی برقرار تھی۔ پھولوں اور پھلدار درختوں کی خوشبو ہوا میں ضم ہوکر نشہ آور ہوگئی تھی۔ جسم کا انگ انگ رومان سے بھر اٹھا تھا۔ کال بیل بج اٹھی۔۔۔ دھوبی؟۔۔۔ اف۔۔۔ دھوبی کو بھی اسی وقت آنا تھا۔۔۔؟ منظر بدل گیا۔۔۔ کتنا
مردار
وہ دروازہ کھول کر گرتا پڑتا اندر داخل ہوا اور ڈھیر ہو گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح نشے میں تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس کے چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔ وہ رو رہا تھا۔ تڑپ رہا تھا۔ اس کا پورا وجود درد و کرب سے لرز رہا تھا۔ شاید کئی راتوں سے سویا بھی نہیں تھا۔ بال بے
احساس زیاں
نکاح کے دو بول کیا پڑھائے گئے بس ہر ایک یہی سوچ لیتا ہے کہ زندگی بھر کا سودا ہو گیا۔ ان دو لفظوں سے زندگی بھر کے لیے دو دِل اور دو جسم بندھ گئے۔ اور لڑکی کے لیے تو اب کسی پرائے یعنی دوسرے مرد کی طرف دیکھنا بھی حرام۔ پسند نا پسند سب ایک طرف جو ہے جیسا
حطّی کلمن سعفص
کئی دن کی خاموشی کے بعد ہچکیوں نے میرے گلے میں پھر ڈیرا ڈال لیا تھا۔ پیٹ دکھنے لگا تھا۔ سینے پر بھاری پن محسوس ہونے لگا تھا۔ خشک ہوتے گلے کی رگوں کو پانی کے گھونٹ اتار کر میں بار بار تر کرتی۔ شروع شروع میں تو اس طرف میری توجہ ہی نہیں گئی کیونکہ دس
لمحہ
دروازہ کھولا تو اسے یوں سامنے کھڑا دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ ’تم؟‘ ’کیا اندر آ سکتا ہوں؟‘ ’ہاں ہاں آؤ۔‘ ایک ہی نظر میں اس نے گھر کا جائزہ لیا۔ اپنے بریف کیس کو ایک طرف رکھا اور صوفے پر اس طرح دراز ہوا جیسے مانوتھک کر چور چور ہو رہا ہو۔
پناہ گاہ
مدراس سینٹرل اسٹیشن کے نزدیک پوناملی ہائی روڈ پر ہوٹل نیلامبر کی پانچویں منزل پر ہمارا قیام تھا۔ کالج کے پندرہ لڑکے لڑکیوں کو میں اور میرے دو کلیگ ویبھو اور ابھیمنیو ایجوکیشنل ٹور پر لائے تھے۔ تمام لڑکے لڑکیاں اور میرے دونوں ساتھی اسی فلور پر پانچ
بڑی فیملی
ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی سات بچوں، دو بہوؤں، ان کے تین بچوں اور دادی سمیت تمام تفصیلات درج کرتے کرتے تقریباً ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔ پچھلے پانچ گھنٹوں سے میں فیلڈ میں تھی اور اب بری طرح تھک چکی تھی۔ سامان سمیٹتے ہوئے باہر نکلی تو
میڈی ٹیشن
ہوٹل کے نزدیک چہل قدمی کرتے ہوئے میری نگاہیں اچانک آشرم پر پڑیں۔ جس سڑک پر یہ آشرم تھا بالکل اس کے دوسری جانب ایک فٹ پاتھ پر جوتے اتارنے کی جگہ تھی۔ میں نے دیکھا لوگ اپنے جوتے اتار کر ملازم کو تھماتے سڑک کراس کرتے اور آشرم کے اندر داخل ہو جاتے۔ میں
ایکوریم
پہلی مرتبہ اس سکھ سے آشنا ہوئی تو سرشار ہو گئی۔ پیار، محبت، دلجوئی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ... جو ہم نے پچیس برسوں میں اسے دیا تھا شاید وہ پچیس دن میں ہی لوٹا دینا چاہتا تھا۔ ممکن ہے یہ پچھلے چھ ماہ کی جدائی کا اثر ہو۔ دراصل بیٹے کو ایک اچھی فرم
اے گردش دوراں
پھولپور واقعہ پھولپور تھا۔ جمناندی کے کنارے بسے اس چھوٹے سے قصبے میں میلوں تک رنگ برنگے خوشنما گلابوں کی فصلیں لہلہاتیں، پرندے چہچہاتے، قمریاں گیت گاتیں، تتلیاں رقص کرتیں اور بچے ان تتلیوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے بچپن سے جوانی تک کا سفر یوں ہی طے کر لیتے۔ پھول
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-