قمر جمیل کے مضامین
تنقید میں قاری کی اہمیت
۱۹۷۰ کے قریب مغربی تنقید میں ایک نئی قوت ابھرنی شروع ہوئی اور وہ قوت قاری کی اہمیت ہے یہ تنقید سمجھتی ہے کہ قاری کی اہمیت معنی کی اہمیت کے باعث ہے یہ تنقید مصنف کو رد کرتی ہے اور معنی کی ذمہ داری قاری پر ڈالتی ہے معنی کو متعین کرنے کی ذمہ داری قاری کی
مثل فوکو اورطاقت کا نظریہ
فوکو کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’ میں کبھی فرائڈ کا ماننے والا نہیں رہا ،نہ میں کبھی مارکس کا پیروکار رہا ہوںاور نہ میں کبھی ساختیات پسند رہا ہوں۔‘‘ سارتر کے انتقال کے بعد خود فوکو کو لوگوں نے’’ نیا سارتر‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ سارتر کی موت کے بعد فرانس
پہلا دریچہ : قاری کی ضرورت
ایک دن گھنگھورا صاحب کو پرندے خریدنے کا شوق ہوا۔ ایک بڑا خوش وضع، خوش گفتار طوطا نیلام ہو رہا تھا خرید لائے کہ اس کی باتوں میں روانی تھی اور اسلوب بڑا خوبصورت گفتگو میں کاما، فل اسٹاپ تک درست تھا کبھی لہجہ میں بلبل کی مٹھاس اورکبھی ایسی تلخی کہ آدمی
جدید آرٹ کی ایک سرحد : کافکا
یہاں سے ہم آپ کو کا فکا کے ایک ناول کے ایک منظر کی طرف لئے چلتے ہیں ۔ سامنے ایک باب قانون ہے اور یہاں ایک در بان ایستادہ ہے کہیں سے ایک گنوار اس در بان کے پاس آتا ہے اور قانون کے دروازےسے داخل ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ دربان اسے یہ اجازت نہیں دیتا وہ
رسالہ در مغفرت استعارہ
علامت، استعارہ تشبیہ اور امیج یہ سب ایک ہی خاندان کی چیزیں ہیں۔ ہیگل نے فن ِتعمیر کو سب سے بڑا علامتی آرٹ بتایا ہے۔ علامت کسی نامعلوم حقیقت کا مظہر ہوتی ہے لیکن نامکمل مظہر، کسی مجرد خیال کا اظہار کرتی ہے لیکن نامکمل اظہار۔ گویا علامت کسی قید حواس میں
ما بعد جدیدیت
جو نتھن رابن نے ’’ Softy City‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ۷۰ء میں لندن میں مابعد جدید رویے کا اظہار ہونے لگا تھا۔ جدیدیت کے تصورات کے خلاف جورد عمل تھا اس رد عمل کی سب سے بڑی نمائندگی دریدا کے رد تشکیل (Deconstruction) کے تصور
اساطیری کہانیاں اور لیوی اسٹراس
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اساطیر کی سائنسی تشریح میں دلکشی ہے۔ افلاطون (فیڈریس Phaedrus) آج کے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی مثلاً راجندر سنگھ بیدی کے’’ گرہن‘‘ میں اساطیری کہانیوں کی پر چھائیاں ملتی ہیں اسی طرح انتظار حسین کو بھی اساطیر سے دلچسپی ہے کامیو
شاہی فرمان
سامنے ایک بابِ قانون ہے۔ اور یہاں ایک دربان ایستادہ ہے۔ اس دربان کے پاس دیہات سے ایک شخص آتا ہے اور قانون کے دروازے میں داخل ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔ دربان اُسے یہ اجازت نہیں دیتا۔ ’’کیا کچھ دیربعد میں اندرآسکوں گا؟‘‘ ’’ہاں مگر ابھی نہیں۔‘‘ قانون
کافکا کی زندگی اور اس کا آرٹ
کافکا کی زندگی ایک دروں بیں شخص کی زندگی ہے وہ اپنی ذات میں کھویا ہوا تھا اس کی تلاش وجستجو کا بڑا گہرا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے تھا۔ یہودی ہونے کے باعث وہ اپنے شہر کی سماجی زندگی سے کٹا ہوا تھا وہ اپنے شہر میں رہ کر اپنے شہر کے واقعات کا مشاہدہ کرتا
آرٹ تاریخ اور کروچے
آرٹ تاریخ اور کروچے فلسفۂ تاریخ کو یونیورسٹیوں میں باعزت مقام دیا جاتا ہے ہماری یونیورسٹیوں میں نہیں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں، لیکن کبھی اس کی حیثیت مہمان ِخصوصی کی بھی ہو جاتی ہے اور کبھی اسے یونیورسٹیوں سے نکال بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن بقول
لیوی اسٹراس اور ساختیاتی بشریات
اٹھارویں صدی سے اساطیر کی اہمیت کم ہونے لگی تھی۔ دنیا بھر میں تصوف، سریت Mysticism صوفیانہ افکار اور اساطیری فکر کا زور کم ہونے لگا، عقلیت پسندی، روشن خیالی اور سماجی علوم کا چرچا بڑھنے لگا۔ بطلیموس کا نظریہ چودہ سو سال کے بعد باطل ٹھہر ا اور کو پر نیکس
دوسرا دریچہ : شناخت کامسئلہ
ہر شاعر کا کلام، ہر مصّور کا آرٹ اپنی شناخت الگ رکھتا ہے۔ میر، غالب، اقبال اور ن م راشد کا کلام اپنی اپنی جگہ منفرد ہے اس زمانے میں جب شاعروں کے مجموعے اپنی شناخت کھورہے ہوں سچے آرٹ کا ظہور مشکل ہے۔ آج ادب پڑھنے والوں اور ادیبوں کی نگاہیں خود اپنی
اونا مونو اور ادب
اونا مونو اور ادب ’’جب ایک آدمی چیختا چلاتا ہے یا دھمکاتا ہے ہم دوسرے تمام جانور اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں تب آدمی کی توجہ کسی دوسری دنیا میں نہیں ہوتی۔ تاہم وہ اپنے ہی انداز سے بھونکتا ہے بات کرتا ہے اور اس چیز نے اسے اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ان چیزوں