- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
رابعہ الرباء کے افسانے
سویٹ ہارٹ
(دل جیسی اک بوند کی کیا اوقات سمندر بیچ) ’’اچھا سویٹ ہارٹ اب میں اسٹڈی کرنے جا رہا ہوں۔ Please Don't Disturb‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہونٹ چومے اور اس کے روم روم میں اپنا وجود چھوڑ کر شب خوابی کا لباس پہنتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا اور کمرے کا دروازہ
ساتویں سمت
وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی، جس کا اس نے سودا کیا تھا، یا جو کہیں کھوئی تھی۔ گول گپا چہرہ، بھرے بھرے گالوں پہ سیاہ بڑی بڑی اداس آنکھیں جن کی اداسی چھپانے کے لیے وہ کا جل سے اوپر نیچے لکیریں بنایا کرتی تھی۔ سرخ انگاروں جیسے بھرے پرکشش ہونٹ جن
روح کا سفر
آسمانی پردوں پر، رائل بلیو لہروں میں، سفید پتوں کی باتیں، جب نیلے بیڈ پہ بچھے ریشمی رائل بلیوبستر کے موتیا پھولوں سے ہوتیں تو وہ الماری کے قریب بچھی آسمانی رگ پہ آ بیٹھتی اور بلیو کشن سے ٹیک لگا کر ان کی چھیر چھاڑ سنتی اور دیکھتی رہتی۔ یہ سب باظاہر بےجان
بانیہ
یہ بہت حسین خنک و نم رات تھی ۔ ستارے آسمان پر مسکرا رہے تھے ۔ چاند آسما ن پر اور زمین پر بہت دن بعد آیا تھا۔ سو مست مسرور سے نیم سفید بادل اس کے گرد مدھر رومانوی رقص میں اترا رہے تھے۔ وہ چاند تھا اپنی مستی میں مست، نازاں۔ کہ چاہے جانے کا بھی تو اک الگ
حدت
دھوپ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کیے شگاف سے، انسانوں کے رویوں سے، مخلو ق کے سلوک سے برف پگھل پگھل کر نجانے کب سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ کہاں کس سے جھولتی ہے، کہاں کس کو چومتی ہے، کہا ں اس کا دم بے دم ہو جاتا ہے اور کہاں کس کی باہوں میں سو جاتی
کامو فلیگ
میں اپنی پہلی شادی کا کارڈ بہت خوشی خوشی اسے دینے گیا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ وہ صاف انکار کر دے گا صاف انکار۔۔۔ میرے ذہن میں کئی طرح کے خیال آئے مگر کسی گمان کسی وسوسے پہ یقین نہیں آتا تھا کیوں کہ وہ میرااتنا پرانا یار تھاکہ کوئی پردہ باقی
دستخط
وہ نشے میں د ھت مسلسل رم پیے جا رہا تھا۔ پا ر ٹی ختم ہو چکی تھی۔ سب رقص و سرور سے مدہوش جا چکے تھے۔ایک وہ اور ایک لڑکا جو اس کا سا تھ دے رہا تھا۔۔۔ وہ خود تو ریڈ بئیر تک محدود تھا اور بہت کم لے رہا تھا مگر اپنے باس کا ساتھ زر خرید غلام کی طرح سے دے رہا
سیلیبریشن
واہ شاہ نواز کیا تقریر لکھی ہے تو نے۔۔۔! منسٹر صاحب کی تو ہر طرف واہ واہ ہو رہی ہے کہ اتنا بڑا عاشق رسولؐ، سبحان اللہ!، صالح نے گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مخمور آواز میں کہا۔ ’’بس یار سب گیم ہے گیم، یہ زندگی، یہ لفظ، سب گیم ہے۔ And we all are
نروان
بدھسوا تنہا بیٹھی سوچ رہی تھی کہ سدھارت بدھا کیسے بن گیا۔ اس کو نروان کیسے مل گیا۔ برہمنیت کا غرور خاک میں ملا نا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ نا ہی بدھی ریاضت میں کوئی آسانی تھی۔ ضبط کے بھی روزے کی انتہا، تو پھر نروان کیسے اور کیونکر مل سکتا ہے۔ اس کی سوچیں
حسینئہ من
دھوپ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کے شگاف سے، انسانوں کے رویوں سے، مخلوق کے سلوک سے برف پگھل پگھل کر نجانے کب سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ کہاں کس سے جھولتی ہے، کہاں کس کو چومتی ہے، کہاں اس کا دم بےدم ہو جاتا ہے اور کہاں کس کی بانہوں میں سو جاتی ہے
راج مہر
میں کیا کرتی میرے پر کاٹ دئیے گئے تھے۔ میری سوچ کے در بند کر کے ان پر تالے لگا دئیے گئے تھے۔ جن پہ زنگ نے میرے دشمنوں سے وفا کی، میری آنکھوں پہ شریعت نام کے پردے ڈال دئیے گئے تھے۔ ہاتھوں سے کتاب چھین کر، ایک مقدس کتاب مجھے تھما دی گئی، جسے میں پڑھ سکتی
رات کی رانی
بہار کی قاتلانہ ہوا یوں محو رقص تھی کہ باغ کے تمام درخت، پودے، پتے، شاخیں بھی ان کے ہمراہ ناچ رہے تھے۔ پھولوں پہ دیوانگی کا عاشقانہ عالم طاری تھا، جو چھپائے نہیں چھپتا۔۔۔ اک اک پھول کی خوشبو اپنا حسن بکھرا چکی تھی اور اب یہ چھوٹے چھوٹے عشق مل کر اک بڑے
آخری فلائٹ
ماؤف ذہن میں صرف ایک سوچ تھی میں کیسے ان کا سامنا کروں گا۔ مجھ سے نہیں ہوگا یہ سب۔ میرے میں ہمت نہیں رہی۔۔۔ کیا کہوں گا، ان کو اور کیسے کہوں گا۔۔۔ ان سے نگاہیں کیسے ملاؤں گا، میں کر ہی کیا سکا ہوں ان کے لئے۔۔۔! وہ۔۔۔! انہوں نے ہمارے لئے کیا کچھ نہ
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-