رنگینؔ سعادت یار خاں نام سرہند میں پیدا ہوئے ۔ دہلی میں نشوو نماپائی اور زندگی کا زیادہ حصہ وہیں بسر کیا سپاہی پیشہ آدمی تھے ۔ سیرو سیاحت کا بھی شوق تھا ۔ اکثر امراء کے یہاں ملازم رہے خصوصا شاہزادہ سلیمان شکوہ کے یہاں ۔بعد کو کچھ دنوں حیدرآباد کی فوج میں افسر توپ خانہ بھی رہے آخر میں ملازمت ترک کرکے گھوڑوں کی تجارت شروع کردی تھی۔ بہ حیثیت شاعر عجب متضاد صفتوں کے مالک ہیں کہیں موجد ریختی کی حیثیت سے فرماتے ہیں۔ کہیں سپاہیانہ شان میں آکر فرس نامہ لکھ ڈالتے ہیں ، کہیں کمال سخن دکھانے کے لئے استادوں کے کلام پر اصلاح دیتے ہیں اور خصوصیت یہ ہے کہ ہر رنگ میں اپنی شیفتگی اور رنگینی برقرار رکھتے ہیں اپنے ہمہ گیر مذاق کے ساتھ جس رنگ کو وہ اختیار کرتے ہیں اسلوب اور فن اسی کے لحاظ سے برتتے ہیں اس سے ان کی استادی کو ماننا پڑتا ہے ۔ ریختی کہنے والا ریختہ کو بھی بلند رکھے یہ ان کی قدرت کلام کا ثبوت ہے ۔ انشاءؔ کی دوستی اورامیری کے باعث لکھنؤ میں پری وشوں کی صحبت نے انہیں ریختی و ہزلیات کی طرف مائل کردیا تھا ۔ دہلی کی صحبت نے ناسح بنایا تھا اور ان کے اپنے پیشے نے آن بان اور شان و شوکت کا جوہر عطا کیا تھا ۔ تصانیف میں چار دیوان اردو بہ نام چار عناصر رنگینؔ ہیں پہلے دیوان کا نام ریختہ، دوسرے کا بخیہ، تیسرے کا آمیختہ اور چوتھا انگیختہ ہے ۔ پہلے دو دیوانوں میں بخیدہ عاشقانہ شاعری ہے ۔ زبان میں شستگی کاالتزام بہت ہے لیکن کہیں کہیں سلاست حدا اعتدال سے گزر گئی ہے جس کے باعث اکثر اشعار میں بے لطفی پیدا ہوگئی ہے تیسرا دیوان ہزلیات کا ہے اس میں ایک قصیدہ شیطان کی مدح مںی بھی موجود ہے جس کی ابتدایہ جائے بسم اللہ کے نعوذ باللہ سے کی گئی ہے ۔ چوتھا دیوان ریختی کا ہے ۔ دیوانوں کے علاوہ پانچ کتابیں اور بھی ہیں ۔ 1۔فرس نامہ، اس میں گھوڑوں کی شناخت اور ان کے امراض و علاج وغیرہ کا ذکر ہے ۔ 2۔مجالس رنگینؔ اس میں بعض استادوں کے کلام پر اصلاح دی ہے ۔ 3۔مثنوی دل پذیر دو ادین اور ان سب کتابوں کا مجموعہ نورتن کے نام سے موسوم ہے ۔ 4۔رنگین نامہ، محمود نامہ کے جواب میں ۔ 5۔مثنوی دل پذیر دو ادین اور ان سب کتابوں کا مجموعہ نورتن کے نام سے موسوم ہے ۔ حسرتؔ لکھتے ہیں کہ ان کی مثنوی دل پذیر اپنے زمانے کی تمام مثنویوں سے بہتر ہے زبان اس کی نہایت صاف اور ستھری ہے اور حکایت بھی دلچسپ ہے اور ترکیب و بندش بے تکلف ۔ جرأت کا مصرعۂ تاریخ اس کی بات یہ ہے ۔ شاہ حاتمؔ کے شاگرد تھے لیکن زبان بہت سادہ سلیس اور ذوقؔ کے عہد 1213ھ مطابق1798ء کے عہد کی معلوم ہوتی ہے لیکن بعض اوقات یہ سلاست حد سے زیادہ ہوجاتی ہے ۔ آخر عمر میں ملازمت و تجارت چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی ۔ لکھنؤ میں1251ھ مطابق1835ء میں وفات پائی ۔