- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
رتن سنگھ کے افسانے
پناہ گاہ
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو تقسیم کے بعد بھارت میں ہونے پر بھی خود کو پاکستان واقع اپنے گھر کے کمرے میں ہی محفوظ محسوس کرتا ہے۔ بیتی زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آئیں، ان سب سے بچنے کے لیے اس نے اسی کمرے میں پناہ لی ہے۔ اب وہ بھارت میں ہوکر بھی اسی کمرے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس دوران وہ سوچتا ہے کہ اس کی یہ پناہ اتنی بڑی ہو جائے کہ اس میں سب لوگ سما جائیں اور ہر پریشان حال کو کچھ سکون مل جائے۔‘‘
روداد پاگل خانے کی
کہانی ایک پاگل خانے کی پس منظر میں تقسیم کے المیے کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ایکسپرٹ ڈاکٹر ایک دن بریلی کے پاگل خانے میں آیا اور سبھی پاگلوں کو کھلا چھوڑ دینے اور باقی تمام ا سٹاف کو چھپ جانے کے لیے کہا۔ ڈاکٹر اور اسٹاف کی غیر موجودگی میں پاگلوں نے وہ سب کارنامے انجام دیے، جو سماج میں رہنے والے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وہ سب بھی بیان کیا جو تقسیم کے دوران ہوا تھا۔۔۔ بٹوارا، تشدد، آگ زنی، لوٹ مار اور نقل مکانی کا درد۔
کاٹھ کا گھوڑا
’’زندگی کی بھاگ دوڑ میں الجھے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو اپنے دوستوں سے زندگی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے دوست افسر، کلکٹر اور منسٹر بن گئے، جبکہ وہ ٹھیلا کھینچنے لگا۔ ایک روز اس کا ٹھیلا سڑک کے ایسے موڑ پر پھنس گیا جہاں وہ کوشش کرکے بھی اسے آگے نہیں بڑھا پا رہا تھا۔ پیچھے اس کے ٹریفک کا جام لگتا جا رہا ہے۔ وہاں کھڑے ہوئے وہ خود کو اس کاٹھ کے گھوڑے کی طرح محسوس کرتا ہے جسے وہ بچپن میں میلے سے خرید کر لایا تھا۔‘‘
زندگی سے دور
کہانی مصوری، تعمیر سازی اور مجسمہ سازی جیسے آرٹ کے موضوعات کی تفصیل بیان کرتی ہے جو الگ الگ ہونے کے بعد بھی ایک جیسی ہیں۔ ایک روز ایلورا کی مورتیاں اجنتا کی تصویروں سے ملنے گئیں اور انہوں نے کہا کہ جو بھی انہیں دیکھنے آتا ہے وہ تاج محل کی تعریف کرتا ہے۔ اس سے انہیں پتہ چلا کہ یہی پریشانی اجنتا کے تصویروں کی بھی ہے۔ پھر دونوں مل کر تاج محل کو تباہ کرنے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ مگر جب وہ تاج محل میں گھوم گھوم کر وہاں کی چیزیں دیکھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی وہی ہے جو وہ خود ہیں۔۔۔ یعنی آرٹ۔
بکھرے ہوئے سپنے
کہانی تقسیم ملک کے سائے میں دو دوستوں کے اسکول کے دنوں میں دیکھے گئے خواب اور پھر اس کے بکھر جانے کی داستان ہے۔ اسکول کے دنوں میں انہوں نے بکری پالنے کا سپنا دیکھا تھا۔ اسے بکری مل جاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ جب بکری بڑی ہو جائیگی تو وہ اس کا دودھ دادی اور کچے گھر میں رہنے والی کم عمر کی ماں کو پلائے گا۔ مگر اسے بہت افسوس ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ بکری اتنا کم دودھ دیتی ہے کہ وہ اس کے بچوں کے لیے بھی کم پڑ جاتا ہے۔ پھر اسے اس بکری کو حامد کو دکھانے کا خیال آتا ہے مگر تب تک حامد اس سے اتنی دور چلا جاتا ہے کہ اسے اس کی کوئی خبر بھی نہیں ملتی۔
لہو لہو راستے
یہ کہانی سماجی تفریق کے گرد گھومتی ہے۔ گاؤں میں کچھ اونچی ذات کےلوگوں کو چھوڑ کر کسی اور کو بھی سر اٹھا کر چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر ایک روز ایک شخص نے ٹھاکر کی حویلی کے سامنے سے گزرتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا تو اسے وہاں کچھ چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کی روشنی میں اس کا سر اونچا اٹھتا ہی چلا گیا۔ مگر اس کی قیمت اسے اپنے سر کو جسم سے جدا کر کے چکانی پڑی۔ پھر کچھ اور لوگوں نے ایسا کیا اور ان کے سر بھی جسم سے الگ کر دیے گئے۔ پہلے شخص کا بیٹا، جو اپنے باپ کی موت سے بدحواس ہو گیا تھا، وہ سوچتا ہے کہ ایک دن تو ایسا آئے گا جب سبھی لوگ سر اٹھاکر چلیں گے۔
پانی پر لکھا نام
’’ایک ایسے شخص کی کہانی جو دریا کے کنارے بیٹھا لہروں پر اپنا نام لکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے کچھ دور ہی ایک بچہ ریت کا گھروندا بنا رہا ہے۔ نہ تو وہ پانی پر نام لکھ پا رہا ہے اور نہ ہی بچہ کا گھروندا بن پا رہا ہے۔ اسی بیچ دریا میں ایک ٹہنی بہتی ہوئی آتی ہے۔ بچہ اسے نکال لیتا ہے اور اس کے سہارے اپنا گھروندا بنا لیتا ہے۔ اس پر وہ شخص اسے مبارکباد دینے جاتا ہے تو بچہ کہتا ہے کہ اس نے اس کا نام پانی پر لکھا دیکھا تھا اسی لئے اس کا گھروندا بھی بن سکا۔‘‘
سیالکوٹ کا لاڑا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو بچپن میں ایک گلیانی سے محبت کیا کرتا تھا۔ گلیوں میں سوئیاں، کندھوئیا بیچنے والی راجستھان کی ان گلیانیوں نے بڑے گھروں میں اپنے پکے ججمان بھی بنا رکھے تھے۔ ان گھروں میں جب کوئی خوشی کا موقع آتا تو یہ گلیانیاں وہاں ناچتی گاتی تھی۔ ایسے ہی ایک گھر کا نوجوان لڑکا اپنے بچپن میں ایک گلیانی کی محبت میں پڑ جاتا ہے اور جوان ہونے تک اسی کے عشق میں مبتلا رہتا ہے۔
ایک گاتھا
’’زمانہ قدیم کے ایک واقعہ کے گرد گھومتی یہ کہانی انسانی زندگی میں مایا کے اثر کو بیان کرتی ہے۔ ایک جنگل میں ایک مہارشی مراقبے میں تھے۔ انہوں نے اپنی دیکھ بھال کے لیے ایک کنیا کو رکھ رکھا تھا۔ وہ ان کی دیکھ بھال کرتی اور جنگل میں سکھ سے رہتی۔ پھر اس نے من بہلانے کے لیے کچھ پھولوں کو کنیاؤں میں بدل دیا۔ اس کے بعد ایک رات وہ ایک ندی کے پاس گئی اور وہاں اسے کل جگ کی جھلک دکھی اور وہ اس کی طرف کھنچتی ہی چلی گئی۔ اسے بچانے کے لیے مہارشی کو سمادھی سے واپس آنا پڑا۔‘‘
ایک ناؤ کے سوار
کہانی میں زندگی کے دو اہم پہلو سکھ اور دکھ کی عکاسی کی گئی ہے، جو دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ سکھ بہت خوش ہے اور ملاح سے کہتا ہے کہ وہ کشتی کو اور تیز چلائے، کیونکہ اس کنارے پر بہت سارا سکھ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہیں دکھ بہت دکھی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کشتی دھیرے چلے، کیونکہ اس پار اور دکھ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اسی درمیان کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ کسی طرح سکھ اور ملاح مل کر کشتی کو بھنور سے نکال لیتے ہیں۔ اس کے بعد سکھ سوچتا ہے کہ ا گر وہ دکھ کی بھی مدد کرے تو ہو سکتا ہے اس کا بھی کچھ دکھ کم ہو جائے اور وہ اس کی جانب چل پڑتا ہے۔
اجڑا ہوا ٹیلہ
یہ کہانی انسانی فطرت اور اس کے اعمال کا نفسیاتی تجزیہ کرتی ہے۔ ایک دن وہ خود کو ایک اجڑے ہوئے ٹیلے پر پاتا ہے۔ اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ وہ تنہا ہے۔ پھر ایک گلہری آتی ہے اور وہ ببول کے کانٹے سے زخمی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد پیڑ کی جڑ کی ایک درار سے ایک خوبصورت لڑکی نکلتی ہے۔ وہ اس کے لیے پانی لانے اور کھانے پکانے کے لیے کہتی ہے۔ اتنے میں ٹیلے کے گرد ایک بستی آباد ہو جاتی ہے۔ مگر جب کھانا بنتا ہے تو کچھ لوگ تو اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کھانا لے لیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔ اس سے ان کے درمیان فساد ہوتا ہے اور وہ بستی پھر سے اجاڑ ٹیلہ بن جاتی ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-