- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
ریاض توحیدی کے افسانے
ماں
وہ اوندھے منہ زمین پر گر کر ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ جن بچوں کے ساتھ وہ کھیل کو د میں مشغول تھا وہ دوڑتے ہوئے اس کے گھر گئے اور اس کی ماں کو ساتھ لے آئے۔ ماں نے جب روتے روتے اپنے دوپٹے سے اس کے جھاگ بھرے منھ کو صاف کیا تو وہ تھوڑی دیر بعد پھر سے اپنے حواس
کالے پیڑوں کا جنگل
سورج ڈوبتے ہی بستی کے اندر کالے پیڑوں کا جنگل نمودار ہو جاتا تھا۔ ان کالے پیڑوں کی آدمی خور شاخیں، آدم زاد کے قدموں کی آہٹ محسوس کرتے ہی آگ کے شعلے بر سانا شروع کر دیتی تھیں اور جب اندھیری رات کا بھیانک سایہ بستی کے طول و عرض میں پھیل جاتا تو زندہ انسانوں
مینٹل ہاسپٹل
آوارہ کتوں کی ہڑبونگ نے بستی میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔ یہ کتے کسی بھی گلی، کسی بھی راستے پر بلاخوف انسانوں پر حملہ کر دیتے۔ دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی آدمی ان کی کاٹ سے ضرور زخمی ہو جاتا تھا۔ بچوں کی نفسیات آوارہ کتوں کے خوف سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو
تیسری جنگ عظیم سے قبل
وہ سنگ دل گلچیں اپنے پر فریب محدّب شیشوں کی زہریلی شاعوں سے گل زمین کے لالہ فام پھولوں کو اپنا نشانہ بنا رہے تھے۔ چمنستان کے شاہین فطرت پرندے، ان مردہ خور کر گسوں کی بدطینت خصلت بھانپ گئے اور اپنے چمنستان کو ان مردہ خوروں کی پروازوں سے آزاد کرانے کے
زہریلے ناخدا
اس کی جوانی۔۔۔ زندگی اور موت کی آخری کشمکش میں مبتلا تھی۔ اسپتال میں خود کو پاکر اسے یک گونہ سکون محسوس ہوا لیکن جسم میں پھیل رہے زہر کو وہ کیسے روک پاتی۔ وہ حادثات اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے جن کی وجہ سے آج وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ وہ ایک
کالے دیوؤں کا سایہ
غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالے دیوؤں کا خوفناک سایہ بستی کی خاموش فضا پر آندھی بن کر چھا جاتا اور شل زدہ ذہنوں میں ماتم کی دھنیں بجنا شروع ہو جاتیں۔ خوف کا سائرن بجتے ہی خون آلودہ دلوں کی دہشت ناک لہروں سے غمگین سوچوں میں وحشت ناک ارتعا ش پیدا ہو جاتا۔ معصوم
مصلوب دھڑکنیں
شتر بےمہار کی گھنٹی کی ڈراونی آواز نے پھر اس کے کان کے پردوں کو پھاڑتے ہوئے، اس کی خوف زدہ نیند پر شنجون مارکر، اس کے سکون بھرے گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ شب دیجور کے بھیانک سائے میں ’’ماں! ان ظالموں نے اسے گولی مار دی۔۔۔ وہ زخمی حالت میں سڑک پر ان سے
ٹوٹتی جوانیاں
پبلک سروس کمیشن کی طرف سے سلیکشن لسٹ، جو ایک مقامی نیوز پیپر میں مشتہر ہو اتھا، میں اپنا نام دیکھ کر میں بے حد خوش ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد میری پوسٹنگ شہر سے باہر وادی کے ایک دور افتادہ علاقے گلشن آباد کی گئی۔ ویسے تو میری خواہش شہر میں تھی لیکن میں پھر
جنازے
وہ ایک آفت زدہ بستی تھی۔ وہاں طلو ع آفتا ب سے لیکر غروب آفتاب تک جنازے اٹھتے رہتے تھے۔ اس بستی میں موت کا رقص کئی برسوں سے جاری تھا۔ کبھی بچے اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے اپنے بزرگوں کی لاش پر مٹی ڈالتے اور کبھی بزرگ اپنے ناتواں کندھوں پر اپنے جوان بچوں
سفید تابوت
کالی کوٹھری کے اندھیرے تہہ خانے میں وہ جب اپنے بکھرے وجود کو سمیٹنے کی کوشش کرتا تو اندھیرے عالم کے خوفناک مناظر اس کی نیند پر شبخون مارنا شروع کر دیتے اور اس کے ذہن میں شعور، لاشعور اور تحت شعور کے بکھرے خیالات کے درمیاں تصادم شروع ہو جاتا۔ بھیانک
ہارٹ اٹیک
سرما کا موسم تھا۔ زبردست برفباری ہورہی تھی۔ شام کے پانچ بج چکے تھے اور شہر سے دیہات کی طرف جانے والی یہ آخری ٹیکسی تھی۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اسے وہاں پچاس برس کا ایک موٹا تازہ شخص کالے رنگ کا ایمپورٹڈ اورکوٹ پہنے نظر آیا۔ اس نے اپنے دستا نے نکال کر اپنے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-