- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
تمام
تعارف
ای-کتاب202
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے مضامین
ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ
ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، ہندوستان کو اس چیز سے بچاؤ، اس چیز سے بچاؤ، مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چا ہیئے جو اس قسم کا شور پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے فن میں ماہر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر ان کے دل اخلاص
ہندی اور اردو
’’ہندی اور اردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع
باتیں
بمبئی آیا تھا کہ چند روز پرانے دوستوں کے ساتھ گزاروں گا اور اپنے تھکے ہوئے دماغ کو کچھ آرام پہنچاؤں گا، مگر یہاں پہنچتے ہی وہ جھٹکے لگے کہ راتوں کی نیند تک حرام ہو گئی۔ سیاسیات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیڈروں اور دوا فروشوں کو میں ایک ہی زمرے میں
افسانہ نگار اور جنسی مسائل
کوئی حقیر سے حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو، مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسہری کے اندر ایک مچھر گھس آئے تو اس کو باہر نکالنے، مارنے اور آئندہ کے لئے دوسرے مچھروں کی روک تھام کرنے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔۔۔ لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ، یعنی تمام مسئلوں
عصمت فروشی
عصمت فروشی کوئی خلاف عقل یا خلاف قانون چیز نہیں ہے۔ یہ ایک پیشہ ہے جس کو اختیار کرنے والی عورتیں چند سماجی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ جس شے کے گاہک موجود ہوں، اگر وہ مارکیٹ میں نظر آئے تو ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیئے، اگر ہمیں ہر شہر میں ایسی عورتیں نظر آتی
شریف عورتیں اور فلمی دنیا
جب سے ہندوستانی صنعت فلم سازی نے کچھ وسعت اختیار کی ہے، سماج کے بیشتر حلقوں میں یہ سوال بحث کا باعث بنا ہوا ہے کہ شریف عورتوں کو اس ملکی صنعت سے اشتراک کرنا چاہیئے یا نہیں؟ بعض اصحاب اس صنعت کو کسبیوں اور بازاری عورتوں کی ’’نجاست‘‘ سے پاک کرنے کے پیشِ
اللہ کا بڑا فضل ہے
اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان۔۔۔ ایک وہ زمانہ جہالت تھا کہ جگہ جگہ کچہریاں تھیں۔ ہائی کورٹیں تھیں۔ تھانے تھے، چوکیاں تھیں۔ جیل خانے تھے، قیدیوں سے بھرے ہوئے کلب تھے جن میں جوا چلتا تھا، شراب اڑتی تھی۔ ناچ گھر تھے، سینما تھے، آرٹ گیلریاں تھیں اور کیا کیا
مجھے شکایت ہے
مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ، ہفتہ یا روزانہ پرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ کا اشتہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے
میری شادی
میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا جا رہا ہے، اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مجھے بھی کچھ کہنا ہے
ماہوار رسالہ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے سالنامہ 1942 میں میرا ایک افسانہ بعنوان ’’کالی شلوار‘‘ شائع ہوا تھا جسے کچھ لوگ فحش سمجھتے ہیں میں ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ رہا ہوں۔ افسانہ نگاری میرا پیشہ ہے، میں اس کے تمام آداب سے واقف ہوں۔
میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں
معزز خواتین و حضرات! مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں یہ بتاؤں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’کیونکر‘ کے معانی لغت میں تو یہ ملتے ہیں۔ کیسے اور کس طرح؟ اب آپ کو کیا بتاؤں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی
میکسم گورکی
۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۹۰ء کا درمیانی زمانہ جو خاص طور پر عقیم ہے، روس کی تاریخ ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے۔ دوستو وسکی ۱۸۸۱ء میں سپرد خاک ہوا، تو رگنیف ۱۸۸۳ء میں راہی ملک عدم ہوا اور تالستائی کچھ عرصہ کے لئے صناعانہ تصانیف سے روکش رہا۔ جب اس نے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے۔۔۔ کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی۔۔۔ قطع تعلق بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ عداوت بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ عجیب و غریب مضمون ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد اور عورت کا باہمی رشتہ کیا ہے۔ عورت کی طرف مرد کا میلان سمجھ میں آ جاتا ہے
سفید جھوٹ
ماہوار رسالہ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے سالنامہ 1942 میں میرا ایک افسانہ بعنوان ’’کالی شلوار‘‘ شائع ہوا تھا جسے کچھ لوگ فحش سمجھتے ہیں میں ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ رہا ہوں۔ افسانہ نگاری میرا پیشہ ہے، میں اس کے تمام آداب سے واقف ہوں۔
لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟
اس حقیقت کی کیا توضیح ہو سکتی ہے کہ لوگ ایسی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں جو انہیں بے خود و مدہوش بنا دیں۔ مثال کے طور پر شراب، بیئر، چرس، گانجا، افیم، تمباکو اور دوسری چیزیں جو زیادہ عام نہیں مثلاً ایتھر، مارفیا وغیرہ وغیرہ۔ ان منشیات کا استعمال کیوں
زحمت مہر درخشاں
بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً سات یا آٹھ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہاں لاہور پہنچا۔ تین مہینے میرے دماغ کی عجیب و غریب حالت رہی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ بمبئی میں ہوں۔ کراچی میں اپنے دوست حسن عباس کے گھر بیٹھا ہوں یا لاہور میں ہوں جہاں
لذت سنگ
لاہور کے ایک رسوائے عالم رسالے میں جو فحاشی و بے ہودگی کی اشاعت کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے، ایک افسانہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’بو‘، اور اس کے مصنف ہیں مسٹر سعادت حسن منٹو۔ اس افسانے میں فوجی عیسائی لڑکیوں کا کیریکٹر اس درجہ گندا بتایا گیا ہے کہ
دیہاتی بولیاں ۱
آیئے! آپ کو پنجاب کے دیہاتوں کی سیر کرائیں۔ یہ ہندوستان کے وہ دیہات ہیں جہاں رومان، تہذیب و تمدن کے بوجھ سے بالکل آزاد ہے۔ جہاں جذبات بچوں کی مانند کھیلتے ہیں۔ یہاں کا عشق ایسا سونا ہے جس میں مٹی ملی ہوئی ہے۔ تصنع اور بناوٹ سے پاک ان دیہاتوں میں بچوں،
گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ
برس یا ڈیڑھ برس پیچھے کی بات ہے۔ کراچی سے یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ وہاں عورتوں کی جسم فروشی قانوناً ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ اس پر مختلف اخباروں نے الحاج خواجہ شہاب الدین صاحب کے مجلاو مطہر جذبے کی بہت تعریف و توصیف کی تھی۔ میں نے اس وقت بھی سوچا
کرچیں اور کرچیاں
’’ہندوستان کے مشہور نڈر نیتا کے داخلے پر کشمیر میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘‘ ’’اور یہ طرفہ تماشہ ہے کہ یہ مشہور اور نڈر لیڈر خود کشمیری ہیں۔‘‘ ’’سعادت حسن منٹو بھی کشمیری ہے۔‘‘ ’’اور اس پر تین مقدمے فحاشی کے الزام میں چل چکے ہیں۔‘‘
کسان، مزدور، سرمایہ دار، زمیندار
ہمارے دو سال کے تجربات نے، جو ہمیں قحط زدہ علاقہ میں امدادی رقوم تقسیم کرنے کے دوران میں حاصل ہوئے ہیں، ہمارے ان دیرینہ افکار و آرا کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ مصائب جن کی روک تھام کے لئے ہم روس کے ایک کونے میں بیٹھ کر بیرونی ذرائع سے سعی کر رہے ہیں،
اگر
اگر یہ ہوتا تو کیا ہوتا اور اگر یہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا اور اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔۔۔ ظاہر ہے کہ ان خطوط پر ہم جتنا سوچیں گے، الجھاؤ پیدا ہوتے جائیں گے اور جیسا یورپ کے ایک بڑے مفکر نے کہا ہے، ’’یہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔‘‘ کے متعلق سوچ بچار
سرخ انقلاب
وسعت ارضی کے لحاظ سے یورپ میں روس سے بڑی کوئی حکومت نہ تھی اور بلحاظ مطلق العنان زار یورپ کے بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ روسیوں نے اسے شان الوہیت دے رکھی تھی۔ وہ اس کی غلامی کو اپنی سعادت اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ زار
ترقی یافتہ قبرستان
انگریزی تہذیب و تمدن کی خوبیاں کہاں تک گنوائی جائیں۔ اس نے ہم غیر مہذب ہندوستانیوں کو کیا کچھ عطا نہیں کیا۔ ہماری گنوار عورتوں کو اپنے نسوانی خطوط کی نمائش کے نت نئے طریقے بتائے۔ جسمانی خوبیوں کا مظاہرہ کرنے کے لئے بغیر آستینوں کے بلاؤز پہننے سکھائے۔
دیہاتی بولیاں ۲
پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بنجاروں کی آمد بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عورتیں عام طور پر اپنے سنگھار کا سامان انہی بنجاروں سے خریدتی ہیں۔ دیہاتی زندگی میں بنجارے کو اپنے پیشے اور اپنی چلتی پھرتی دکان کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ دیہاتی گیتوں
بن بلائے مہمان
غالب کہتا ہے، میں بلاتا تو ہوں ان کو مگر اے جذبہ دل ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے یعنی اگر اسے بن بلائے مہمانوں سے کد ہوتی تو یہ شعر ہمیں اس کے دیوان میں ہرگز نہ ملتا۔ غالب کہتا ہے میں بلاتا تو ہوں ان کو، مگر میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ
ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر
۱۹۱۳ء میں مسٹر ڈی جی پھالکے نے ہندوستان کا پہلا فلم بنایا اور اس صنعت کا بیج بویا۔ دادا پھالکے نے آج سے پچیس برس پہلے اپنی دھرم پتنی کے زیورات بیچ کر جو خواب دیکھا تھا ان کی نگاہوں میں یقیناً پورا ہو گیا ہوگا، مگر وہ خواب جو ملک کے ترقی پسند نوجوان
کسوٹی
یہ نئی چیزوں کا زمانہ ہے۔ نئے جوتے، نئی ٹھوکریں، نئے قانون، نئے جرائم، نئی گھڑیاں، نئی بے وقتیاں، نئے آقا، نئے غلام اور لطف یہ ہے کہ نئے غلاموں کی کھال بھی نئی ہے جو ادھڑ ادھڑ کر جدت پسند ہو گئی ہے۔ اب ان کیلئے نئے کوڑے اور نئے چابک تیار ہو رہے ہیں۔ ادب
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی، سو جب تک مردوں کو وصل نصیب نہیں ہوتا، وہ حسرت ہی سے اپنا دِل بہلاتے رہیں گے اور خوباں سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ سلسلہ کب شروع ہوا۔ وہ مرد کون تھا جس نے پہلی بار کسی عورت کو چھیڑا۔ اس کے متعلق تاریخ سے ہمیں کچھ
لیچیاں، آلوچے اور الائچیاں
’’آپ کا اسم گرامی؟‘‘ ’’خاکسار کو آلوچہ چیچا وطنی کہتے ہیں۔‘‘ ’’فرمایئے!‘‘ ’’یہ میرے مکرم دوست۔۔۔ مسٹر آلو بخارا ہیں۔‘‘ ’’ارشاد؟‘‘ ’’ہمیں بیگم خوبانی صاحبہ سے شرف ملاقات حاصل کرنا ہے۔‘‘ ’’میں ابھی اطلاع کرتی ہوں۔‘‘
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بت نمبر ایک بڑا طنازبت ہے۔ کبھی اس کلب کی زینت رہتا ہے، کبھی اس کلب کی۔ اسے کلبوں کا بت کہا جائے تو شاید زیادہ مناسب و موزوں ہو۔ پورٹ وائن نہیں پیتا۔ وسکی پیتا ہے۔ ساڑھی نہیں پہنتا غرارہ پہنتا ہے۔ سنا ہے اس کے پاس ایک ہزار غرارے ہیں۔ اس بت کے سیکڑوں
یوم استقلال
جب ہندوستان کے دو حصے ہوئے تو میں بمبئی میں تھا۔ ریڈیو پر قائد اعظم اور پنڈت نہرو کی تقریریں سنیں۔ اس کے بعد جب بٹوارہ ہو گیا تو میں نے وہ ہنگامہ بھی دیکھا جو بمبئی میں برپا ہوا۔ اس سے پہلے ہر روز اخباروں میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں پڑھتا رہا تھا۔
قتل و خون کی سرخیاں
آج کل اخباروں میں سب سے نمایاں سرخیاں قتل و خون کی ہوتی ہیں۔ جہاں تک سرخیوں کا تعلق ہے یہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، لیکن آدمی سوچتا ہے کہ آخر انسان، انسان کے خون کا پیاسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ جذبہ اس کی جبلت کے تحت ہے، اس سے مجھے انکار نہیں لیکن خاص طور
ضرورت ہے
محکمہ خدمات خاصہ کو مندرجہ ذیل عارضی اسامیوں کے لئے درخواستیں مطلوب ہیں۔ (نئی وزارت بننے پر نئے تقررات ہوں گے) چھپے ہوئے فارم موجود نہیں۔ اس لئے امیدوار سادہ کاغذ ہی پر درخواست لکھ کر روانہ کریں، جو لکھنا نہیں جانتے وہ سادہ کاغذ ہی روانہ کر دیں، مگر
دو گڑھے
مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے، حکومت مجھے کبھی کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لئے روزی کے دروازے بند کئے جاتے ہیں، کبھی کھولے جاتے ہیں، کبھی مجھے غیر ضروری انسان قرار دے کر ’’مکان
اپنی اپنی ڈفلی
’’السلام علیکم!‘‘ ’’وعلیکم السلام!‘‘ ’’کہئے مولانا کیا حال ہے؟‘‘ ’’اللہ کا فضل و کرم ہے۔۔۔ ہر حال میں گزر رہی ہے۔‘‘ ’’حج سے کب واپس تشریف لائے؟‘‘ ’’جی، آپ کی دعا سے ایک ہفتہ ہو گیا۔‘‘ ’’اللہ اللہ ہے۔ آپ نے ہمت کی تو خانہ
طویلے کی بلا
مملکت میں ہر چہار اکناف سے یہ تشویش ناک خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ ’’بوزنیت‘‘ کی لہریں بڑھتی جا رہی ہیں۔ شروع شروع میں تو سرکار نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی، مگر جب دیکھا کہ پانی سر سے گزرنے والا ہے تو وہ اپنی مشینری حرکت میں لائی۔ قارئین کو بتا دینا
اعداد کے ساتھ ادب اور زندگی کی چھیڑ
مسلمانوں نے تیرہ سو سال حکومت کی، مگر اب بیچارے تین میں ہیں نہ تیرہ میں، لیکن چودہ کا عدد بڑا مبارک ہے، اگر کسی کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں تو پورے چودہ ہوتے ہیں، سوا تیرہ نہ پونے چودہ۔ چودھویں کا چاند ہے جس کے متعلق شاعروں نے کیا کچھ نہیں کہا۔ معشوق
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-